Maktaba Wahhabi

510 - 704
اوردس سال کے لیے انہیں معاہدۂ صلح پر مجبور کردیا تھا۔ یہ تمام باتیں اس بات کی قطعی دلیل تھیں کہ قریشوں کا غرور ٹوٹ چکا تھا، اندر سے نہایت کمزور ہوگئے تھے، اور مسلمانوں کے خلاف خونریزجنگوں کی اُن کے اندر طاقت باقی نہیں رہی تھی، اور صلح کی یہ شرط کہ جو کوئی مسلمان ہوکر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آجائے گا اُسے لوٹا دیا جائے گا، اور اسلام سے برگشتہ ہونے والوں کو مسلمانوں کے پاس نہیں لوٹایا جائے گا، مسلمانوں کو اس کی ضرورت نہیں، اور جس کے دل میں اسلام کی محبت جاگزیں ہوجائے گی، اس کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں، اللہ اس کا حامی وناصر ہوگا۔ اور اس کی تصدیق ابوبصیر اور ابوجندل رضی اللہ عنھما کی جماعت اور ان کے حالات سے ہوتی ہے کہ انہوں نے مشرکینِ قریش کا ناطقہ بندکردیا، اور ان کی زندگی اجیرن بنادی، یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ اور صلہ رحمی کا واسطہ دے کر رحم کی بھیک مانگنی شروع کردی، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن مسلمانوں کو واپس نہ کریں جو مکہ سے نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آجاتے ہیں، تاکہ ابوبصیر رضی اللہ عنہ کی جماعت دن بہ دن طاقت ور نہ ہوتی جائے، اور قریشیوں کے خلاف ایک دوسرا محاذ نہ کھول دیں۔ واقعۂ حدیبیہ سے مستفاد بعض فقہی فوائد اور حکمتیں: 1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عُجرہ رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی، (حالانکہ وہ حالتِ احرام میں تھے) کہ وہ اپنے سر کے بال منڈا لیں، اُس تکلیف کے سبب جو انہیں جوئیں ہونے کے سبب لاحق ہوگئی تھی۔ اور بطور فدیہ ایک بکری ذبح کریں، یا تین دن روزے رکھیں، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں، اسی بارے میں سورۃ البقرہ کی آیت نمبر (196) نازل ہوئی: ((فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ)) [البقرۃ:196] ’’ اگر تم میں سے کوئی مریض ہو، یا اُس کے سر میں کوئی تکلیف ہو(تو بال منڈالے اور) فدیہ دے، چاہے تو روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔ ‘‘ (متفق علیہ) 2: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے چشموں کے مانند پانی اُبلنا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حدیبیہ کے دن لوگوں کو شدید پیاس لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پانی کا ایک پیالہ تھا جس سے آپؐ وضوکررہے تھے کہ لوگ تیزی میں آپؐ کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ہمارے پاس پینے کے لیے پانی نہیں ہے، اور نہ وضو کے لیے پانی ہے، سوائے اس پانی کے جو آپ کے سامنے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس میں ڈالا، اور آپ کی انگلیوں کے درمیان سے چشموں کے مانند پانی اُبلنے لگا۔ تمام صحابہ نے پانی پیا اور وضو کیا۔ 3: قربانی میںگائے اور اونٹ سات سات آدمی کی طرف سے کافی ہوتے ہیں، اورجن اونٹوں کی قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، اُن میں ابوجہل کا بھی وہ اونٹ تھا جس کی ناک میں چاندی کا چھلّہ پڑا تھا، تاکہ اس سے مشرکوں کو تکلیف ہو۔ 4: حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ہے، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے ماہِ ذی القعدہ میں نکلے تھے۔ اورحج اور عمرہ کا احرام میقات سے افضل ہے، اور صرف عمرہ میں ہدی کا جانور لے جانا مسنون ہے، اور ہدی کے جانورپر نشان لگادینا مسنون ہے۔
Flag Counter