غزوۂ اُحد
غزوۂ اُحد:
یہ غزوہ اُس پہاڑ کے نام سے مشہور ہے جس کے دامن میں مسلمانوں اور مشرکینِ قریش کے درمیان معرکہ ہوا تھا، یہ پہاڑ مدینہ کے شمال میں مسجد نبوی سے تقریباً ساڑھے پانچ کلو میٹر دور ہے، اس کے جنوب کی طرف سے ’’عینین‘‘ نام کی ایک چھوٹی پہاڑی ہے، جو معرکہ کے بعد ’’جبل الرماۃ‘‘ (تیر اندازوں کی پہاڑی) کے نام سے مشہور ہوگئی، اور ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک وادی ہے جو وادی ’’قناۃ‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی۔
غزوہ کا سبب:
مشرکین جب بدر سے مکہ واپس گئے تو دیکھا کہ تجارتی قافلہ جو ابو سفیان کی قیادت میں شام گیا تھا، واپس آکر دار الندوہ کے پاس رُکا ہوا ہے، اور ان لوگوں کی یہ عادت قدیم زمانے سے تھی، اور یہ قافلہ ہزاروں اونٹوں پر مشتمل تھا، اس وقت سردارانِ قریش یعنی اسود بن مطلب بن اسد، جبیر بن مطعم، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابی جہل، حارث بن ہشام، عبداللہ بن ربیعہ، حویطب بن عبدالعزیٰ، اور حجیر بن ابی اہاب وغیرہم ابو سفیان اور ان قریشیوں کے پاس چل کر گئے جن کا مالِ تجارت اس قافلے میں تھا، اور کہا کہ ہم لوگ بطیبِ خاطر اس کے لیے تیار ہیں کہ اس قافلے کے منافع سے ایک زبردست فوج محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جنگ کرنے کے لیے تیار کی جائے۔
ابو سفیان نے کہا: میں سب سے پہلے اس کی منظوری دیتا ہوں، اور میرے ساتھ بنی عبدمناف بھی، چنانچہ سب نے مل کر اس مالِ تجارت کو بیچ کر سونے میں بدل دیا، اور مال والوں کو ان کا رأس المال واپس کردیا، اور نفع نکال لیا، اس تجارت میں ان کوایک دینار کے بدلے ایک دینا ر نفع ہوا تھا، انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ)) [الأنفال: 36]
’’ بے شک اہلِ کفر اپنی دولت اس لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روک دیں، پس وہ اُسے خرچ کریں گے، پھر وہ ان کی حسرت کا سبب بن جائے گی، پھر وہ مغلوب ہوجائیں گے، اور اہلِ کفر جہنم کے پاس جمع کیے جائیں گے۔ ‘‘ [1]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اُن قرشی سرداروں نے ابو سفیان اور ان لوگوں سے جن کا مالِ تجارت اس قافلے میں تھا، کہا: اے اہلِ قریش! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا اور تمہارے سرداروں کو قتل کردیا، اس لیے تم
|