انکار کردیا، کفروشرک پر ان کا اصرار مزید بڑھ گیا، اور انہوں نے مومنوں کی تعذیب اور ایذاء رسانی کو اورتیز کردیا۔ [1]
اکابرِ مجرمینِ مکہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کو ایذاء پہنچانے والے، اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے والے تو بہت تھے، لیکن مکی سوسائٹی میں جن لوگوں نے عداوتِ اسلام کا بیڑا اُٹھارکھا تھا، نت نئی سازشیں کرتے تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہچانے کی ہر روز نئی نئی تدبیریں کیا کرتے تھے ، اور بعثتِ نبوی کے بعد ان کی زندگی کا مقصد اسلام پر کاری ضربیں لگانے اور اسے ختم کردینے کی انتہائی کوششیں کرنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا، ان کے نام اسلام کی تاریخ میں معروف ومدون ہیں۔اور ان میں سے بعض کے ذکر اور ان کی دسیسہ کاریوں اور اُن کے اُن شیطانی کارناموں کے بیان کرنے کا مقصد( جن کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل کانپنے لگتے ہیں )یہ ہے کہ ہم اپنے ذہنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کو حاضر کریں اور سوچیں کہ کیسی قابل رحم حالت رہی ہوگی آپؐ کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت الی اللہ کے لیے اور بھٹکتی اور گمراہ انسانیت کو راہِ راست پر لانے کے لیے ان تمام روح فرسا ایذاء رسانیوں کو برداشت کرتے تھے۔ ذیل میں ان بعض مجرمین سے متعلق کچھ باتیں پڑھئے:
ابوجہل:
اس کا نام عمرو بن ہشام بن مغیرہ مخزومی قرشی تھا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ شعبہ نے قبیلۂ کنانہ کے ایک آدمی سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بازار ذو المجاز میں کہتے سنا: اے لوگو! تم لَا إلٰہ إلا اللّٰہ کہو، کامیاب ہوجاؤگے۔ آپؐ کے پیچھے کھڑا ایک آدمی آپؐ پر مٹی ڈال رہا تھا، وہ ابوجہل تھا، اور کہہ رہا تھا : لوگو! یہ آدمی تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ نہ کردے۔ یہ چاہتا ہے کہ تم لوگ لات وعزیٰ کی عبادت کرناچھوڑدو۔ [2]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مشرکینِ مکہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک طویل مکالمہ نقل کیا ہے ، اور لکھا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے لوٹے تو ابوجہل نے کہا: اے اہلِ قریش! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہماری ہر بات کا انکار کردیا ہے ، ہمارے دین کی عیب جوئی کررہا ہے، ہمارے آباء واجداد کو گالی دیتا ہے اور ہم سب کو بے عقل کہتا ہے اور ہمارے معبودوں کو گالی دیتا ہے ۔ میں اللہ سے تم سب کے سامنے اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ میں کل ایک پتھر لے کر اس کی گھات میں بیٹھوں گا اور وہ جب سجدہ کرے گا تو اس کا سر کچل ڈالوں گا۔اس کے بعد بنی عبدمناف کی سمجھ میں جو آئے ہمارے خلاف کرے۔
ابو جہل دوسرے دن صبح کو پتھر لے کر بیٹھ گیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں رکنوں (رکنِ اسود اور رکنِ یمانی) کے درمیان نماز پڑھنے لگے، اُن دنوں آپؐ شام کی طرف رُخ کرکے نمازپڑھا کرتے تھے، اور اہلِ قریش اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر دیکھنے لگے کہ کیا ہوتا ہے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا ، تو ابوجہل پتھر لے کر آپؐ کی طرف بڑھنے لگا، یہاں تک کہ جب آپؐ کے قریب پہنچا تو نہایت خوفزدہ ہوکر واپس بھاگا، اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا، اور اس کے دونوں ہاتھ پتھر پر جمے ہوئے
|