Maktaba Wahhabi

120 - 704
(1) جزیرہ نمائے عرب کا طبیعی اور جغرافیائی محل وقوع: یہ پیغامِ اسلام جو پیغامِ عزت وشرف ہے، اور جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سارے عالم میں پہنچایا، ضروری تھا کہ اس پیغام کی ذمہ داری اٹھانے والے ایسے غیور وخوددار ہوں جنہوں نے کبھی بھی ذلت ورسوائی اور دوسروں کی طرف سے ظلم وزیادتی کو برداشت نہ کیا ہو، اس لیے کہ جو لوگ غلامی اور چاکری کے بوجھ تلے زندگی گزارنے کے عادی بن جاتے ہیں، اور ذلت ورسوائی جن کی طبیعتِ ثانیہ بن جاتی ہے ، ایسے لوگ کبھی بھی دنیا والوں کا سامنا عزتِ نفس کے ساتھ نہیں کرسکتے، اور نہ ان کے سامنے عزت وشرف والا پیغام پیش کیا جاسکتا ہے۔ رومی اور ایرانی قومیں جو بلادِ عربیہ کے جوار میں رہتی تھیں، وہ دو قسموں میں بٹی ہوئی تھیں: بادشاہوں اور حاکموں کی قسم، جو اپنے آپ کو زمین پر رہنے والوں کا معبود سمجھتے تھے، اور عام لوگوں کی قسم، جو سیکڑوں سال سے اُن بادشاہوں اور حاکموں کی غلامی اور چاکری کے بوجھ تلے زندگی گزار ررہے تھے، اور حقیر اور گراوٹوں سے بھری زندگی کے عادی تھے، جیساکہ قارئینِ کرام کو عنقریب اس سے متعلق تفصیلات کا علم ہوگا۔ اس لیے دعوتِ اسلامیہ کی یہ ضرورت تھی کہ اسلام کی اس دعوت کو ان بادشاہوں ، حاکموں اور اس دور کے جابر حکمرانوں نیز مشرق ومغرب او رشمال وجنوب میں رہنے والی دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنے والے غیوروخوددارہوں ،اور ذلت ورسوائی اور ظلم کو برداشت کرنے کے عادی نہ رہے ہوں،تاکہ ان کے سامنے وہ اسلام کی دعوت بایں طور پیش کریں کہ اُن کے سر اُن کے سامنے اونچے رہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جزیرۂ عرب کے محلِّ وقوع کو ایسا بنایا ہے کہ عربوں میں غیرت وخودداری، عزت ونخوت اورآزادئ نفس جیسی صفات پیدا ہوتی تھیں، چنانچہ عرب بطور عام اور جزیرۂ عرب کے رہنے والے بطور خاص ایک فطری اور سادہ زندگی گزارتے تھے، چاہے وہ شہر وں اور بستیوں کے رہنے والے ہوں، یا بادیہ وصحرا نشین۔ اُن کے ارادے بہت پختہ ہوتے تھے، صراحت اور ارادہ کی پختگی ان کی عادتِ ثانیہ ہوتی تھی، کسی کو دھوکا نہیں دیتے تھے، اور نہ غیروں کی جانب سے ظلم وجور کو قبول کرتے تھے، اپنے دشمنوں پر آگے سے حملہ کرتے تھے، کبھی پیٹھ پیچھے سے اُنہیں جا نہیں لیتے تھے، اس لیے کہ وہ دھوکا دہی اورغداری کے عادی نہیں تھے، اپنے دل کی بات بغیر کسی تمہید ومقدمہ کہہ دیتے تھے ، چاہے نتیجہ جو بھی ہو۔ جس بات کے وہ مخالف ہوتے تھے اس کی پوری قوت اور سختی کے ساتھ مخالفت کرتے تھے، اور جس بات کو وہ پسند کرتے تھے اس کی پوری سچائی اور صدقِ جذبات کے ساتھ تائید کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صفات سہیل بن عمرو میں اُس وقت ظاہر ہوگئیں جب اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ حدیبیہ کے موقع سے صلح نامہ کا املاء کراتے ہوئے کہتے سنا: یہ عہد نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ نے اتفاق کیا ہے ۔ سہیل نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم جانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو، تو ہم تمہیں اللہ کے گھر سے کبھی نہیں روکتے، اور تم سے کبھی جنگ نہیں کرتے۔ اس لیے لکھو:جس پر محمد بن عبداللہ نے اتفاق کیا ہے۔[1]
Flag Counter