جانوروں نے خوب سیر ہوکر پانی پیا۔ [1]
کثرتِ طعام:
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر نکلے، ہم سب کو شدید بھوک اور پیاس کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ ہم لوگوں نے سواری کے جانوروں کو ذبح کرنے کا ارادہ کرلیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سب اپنے کھانے کے برتن جمع کریں، ہم نے ایک چادر بچھا کر اُس پر اپنی تھیلیوں میں موجود کھانے کی چیزوں کو ڈال دیا، میں نے آگے بڑھ کر اندازہ لگایا تو وہ ایک بیٹھی ہوئی بکری کے مانند اونچا ڈھیر تھا، اور ہماری تعداد چودہ سو(1400) تھی، ہم سب کھانے لگے، یہاں تک کہ آسودہ ہوگئے اور اپنی تھیلیوں کوبھی اچھی طرح بھرلیا۔ [2]
بُدیل بن ورقاء خزاعی کا مشورہ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مقامِ حدیبیہ میں خیمہ زن ہوگئے تو بُدیل بن ورقاء خزاعی اور اس کے ساتھ خزاعہ کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے، یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخلص تھے، بُدیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم آپ کی قوم کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کے پاس سے آرہے ہیں، انہوں نے آپ سے جنگ کرنے کے لیے مختلف الانواع جنگجوؤں اور اپنے دیگر تابعِ فرمان لوگوں کو جمع کرلیا ہے، اور اُن کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی ہیں، انہوں نے قسم کھائی ہے کہ آپ خانہ کعبہ تک اسی حال میں پہنچ سکتے ہیں کہ آپ انہیں یکسر ختم کردیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کسی سے جنگ کرنے کے لیے نہیں آئے ہیں، ہم تو صرف بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے آئے ہیں، اور اگر کوئی ہمیں روکے گاتو ہم اس سے جنگ کریں گے، قریشیوں کو جنگ نے بہت ہی نقصان پہنچایا ہے، اور انہیں نڈھال کردیا ہے، اگر وہ چاہیں گے تو میں صلح کی مدت بڑھادوں گا، بشرطیکہ وہ میرے اور لوگوں کے درمیان رُکاوٹ نہیں بنیں گے، اور جب میں لوگوں پر غالب آجاؤں گا، تو انہیں اختیار ہوگا، چاہیں گے تو دینِ اسلام میں داخل ہوجائیں گے، اوراگر جنگ کرنا چاہیں گے تو انہیں ایک گونہ راحت پانے کا موقع مل چکا ہوگا۔ اللہ کی قسم! میں اپنے اس مِشن کی تکمیل میں پوری قوت صرف کروں گا، یہاں تک کہ اللہ اپنے دین کو غالب کردے گا، یا اسی راہ میں میری موت آجائے گی۔
بُدیل نے کہا: میں اہلِ قریش تک آپ کی یہ بات پہنچا دیتا ہوں، پھر وہ وہاں سے چل کر قریش کے پاس آیا اور اُن سے کہا: ہم تمہارے پاس اُس آدمی سے بات کرکے آئے ہیں، اگر تم چاہو توہم وہ بات تمہارے سامنے پیش کریں، اُن کے نادانوں نے کہا: ہم اُس کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اُن کے ہوشمندوں نے کہا، اچھا، بتاؤ، تم سے اس نے کیا کہا ہے، بُدیل نے کہا: میں نے اسے ایسا اور ایسا کہتے سُنا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری بات اُن کو سنائی۔
عُروہ بن مسعود ثقفی، قریش کا ایلچی:
بُدیل کی پوری بات سننے کے بعد عُروہ بن مسعود ثقفی نے کہا کہ بُدیل مفاہمت کی بڑی اچھی شکل لے کر آیا ہے، جو شخص
|