Maktaba Wahhabi

371 - 704
خدمت میں پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: اگر تم اسلام لے آؤگے تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا، فرات مسلمان ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا۔ قافلہ سے حاصل کیے گئے مال واسباب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ حصوں میں تقسیم کیا، اس کے پانچویں حصہ کی مقدار بیس ہزار تھی، ایک حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس رکھا، اور باقی چار حصوں کو فوجی دستے پر تقسیم کردیا، اس طرح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اُن کے ذمہ لگائے گئے جہادی کام کو بطریق احسن انجام دیا، یہ واقعہ ماہ جمادی الثانیہ سن تین ہجری کا ہے۔ سیّدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح: غزوۂ احد سے پہلے سن تین ہجری کے اہم واقعات میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ سے پھر زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنا ہے۔ میں نے اس سے پہلے امّ کلثوم بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عثمان رضی اللہ عنہ کی شادی کے واقعہ میں لکھا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے شادی کا پیغام دیا تھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے معذرت کردی تھی، اور یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر سے کہا تھا کہ میں تمہیں عثمان سے بہتر داماد اور عثمان کو تم سے بہتر سسر نہ بتاؤں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: ہاں یا رسول اللہ ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو، اور میں اپنی بیٹی کی شادی عثمان سے کردیتا ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد سے دو ماہ قبل ماہ شعبان میں حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ سے شادی کرلی، حفصہ رضی اللہ عنہ آپ سے پہلے صالح جوان خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، (جو بدر میں شہید ہوگئے تھے)، حفصہ رضی اللہ عنہ کی وفات سن 45 ہجری میں ہوئی اور بقیع میں دفن کی گئیں۔ [1] زینب بنت خزیمہ الہلالیہ رضی اللہ عنہما سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح: انہیں امّ المساکین کہا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مدینہ میں حفصہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کے بعد ماہِ رمضان میں نکاح کیا، یہ آپ کے پاس صرف آٹھ ماہ رہ سکیں، اور آپ سے پہلے طفیل بن حارث بن المطلب کے نکاح میں تھیں، آپ نے جب انہیں نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے اپنا معاملہ آپ کے سپرد کردیا، چنانچہ آپ نے ان سے شادی کی، اور گواہ مقرر کیا، اورانہیں دس اوقیہ اور ایک نش مہر میں دیا، وہ ماہِ ربیع الآخر میں ہجرت کے انتالیس مہینہ کے بعد وفات پاگئیں، ان کی نمازِ جنازہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی اور انہیں بقیع میں دفن کیا۔ [2]
Flag Counter