وفات کے وقت اُن کے حکم سے وہ لاٹھی ان کے کفن میں رکھ دی گئی اور دونوں ایک ساتھ دفن کردیے گئے ۔ [1]
سریہ یوم الرجیع:
اورماہِ صفر سن چار ہجری میں مضر کے دو قبیلے عَضَل اور قارہ سے ملی جلی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور واقدی کا خیال ہے کہ ان لوگوں نے قبیلۂ ھُذیل کے ساتھ خالد بن سفیان الہذلی کا انتقام لینے کے لیے اتفاق کیا ہوا تھا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صحابہ کی ایک جماعت انہیں دین سکھلانے اور قرآن پڑھانے کے لیے بھیج دیں۔ بخاری کی روایت کے مطابق آپ نے اپنے دس صحابہ کرام کو، اور ابن اسحاق کے قول کے مطابق چھ سو صحابہ کو، اور موسیٰ بن عقبہ کے قول کے مطابق سات صحابہ کرام کو ان کے ساتھ بھیج دیا، اور عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنا دیا، اور ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے ان کا امیر مرثد بن ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ یہ حضرات ان لوگوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور مقام رجیع پر پہنچے، جو حجاز کے ایک کنارے پر قبیلۂ ھذیل کا ایک کنواں تھا، تو انہوں نے صحابہ کے ساتھ غداری کی اور قبیلۂ ھذیل کے ایک خاندان بنو لحیان کو آواز دے کر بلا لیا، جنہوں نے آتے ہی صحابہ کرام کو چاروں طرف سے گھیر لیا، ان کی تعداد سو (100) تھی جو تمام کے تمام تیر انداز تھے۔
جب عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی آمد کا یقین ہوگیا تو انہوں ایک اونچی جگہ پر پناہ لے لی، کافروں نے صحابہ سے کہا: تم لوگ اتر کر نیچے آؤ، اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو، ہم تم سے عہد وپیمان کرتے ہیں کہ تم میں سے ایک کو بھی قتل نہیں کریں گے۔
عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: ساتھیو! میں کسی کافر پر اعتماد کرکے نیچے نہیں اتروں گا، پھر انہوں نے کہا: اے اللہ! تو ہمارے بارے میں اپنے نبی کو خبر کر دے۔ اس کے بعد ان کافروں نے تیراندازی شروع کردی، اور عاصم اور ان کے چھ ساتھیوں کو قتل کردیا، اور ان میں سے تین آدمی ان کے عہد وپیمان پر بھروسہ کرتے ہوئے نیچے اُتر آئے، وہ حضرات خبیب، زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما اورایک تیسرے آدمی تھے، جب کافروں نے پوری طرح انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا، تو انہیں اپنے کمان کے تاروں سے باندھ دیا۔
تیسرے آدمی نے کہا: یہ بے وفائی کی ابتدا ہے، اللہ کی قسم! میںتمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا، میرے لیے یہ شہداء نمونہ ہیں، چنانچہ کافروں نے ان کو گھسیٹنا اور تکلیف پہنچانا شروع کیا، لیکن پھر بھی انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ تب کافروں نے انہیں قتل کردیا، اور خبیب اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما کو لے کر چلے گئے، اور مکہ کے بازارمیں انہیں بیچ دیا، ان دونوں صحابیوں نے میدانِ بدر میں مکہ کے سرداروں کو قتل کیا تھا، خبیب رضی اللہ عنہ نے حارث بن عامر بن نوفل کو قتل کیا تھا، خبیب رضی اللہ عنہ ان کے پاس کچھ دنوں تک قید میں رہے، پھر سب نے ان کے قتل پر اتفاق کرلیا، اور انہیں حرم سے تنعیم لے گئے، خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو، انہوں نے ان کو اجازت دے دی، انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی، اور کہا: اللہ کی قسم! اگر تمہیں یہ گمان نہ ہوتا کہ مجھے اپنی موت سے گھبراہٹ ہے تو میں اورنماز پڑھتا، پھر انہوں نے دعا کی: اے اللہ! ان تمام کو ایک ایک کرکے گن لے اور ان تمام کو ایک ایک کرکے قتل کردے، اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ معاف کر، پھر آپ نے یہ شعر پڑھا:
|