کرجاتا تھا، لیکن وہ حرکت نہیں کرتے تھے، قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس دن زخمی ہوگئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اس آنکھ کو دوبارہ اس کی جگہ پر بٹھا دیا، اس کے بعد ان کی وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زندگی بھر زیادہ صحت مند اور اچھی رہی ۔ [1]
حنظلہ غسیل الملائکہ:
حنظلہ بن ابو عامر رضی اللہ عنہ نے ابو سفیان پر زبردست حملہ کیا، اورجب اسے قتل کرنے پر پوری طرح قادر ہوگئے تو شداد بن اسود نے ان پر دوسری طرف سے حملہ کرکے انہیں قتل کردیا، حنظلہ رضی اللہ عنہ اس وقت حالت جنابت میں تھے، اسی رات ان کی شادی ہوئی تھی، جب انہوں نے جہاد کے لیے نکلنے کی آواز سُنی تو فوراً نکل پڑے اور غسل نہ کرسکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خبر دی کہ فرشتے انہیں غسل دے رہے ہیں، پھر کہا: اس کی بیوی سے پوچھوکہ بات کیا ہے ؟ انہوں نے ان کی بیوی سے پوچھا تو حقیقت ِ حال کی انہیں خبردی۔
امّ عمارہ رضی اللہ عنہما میدان ِ اُحد میں:
امّ عمارہ نسیبہ بنت کعب المازنیہ رضی اللہ عنہ نے زبردست جنگ کی، اور عمرو بن قمئہ پر اپنی تلوار سے کئی ضرب لگائی، لیکن وہ دو زرہیں پہنے ہوا تھا، اسی لیے وہ بچ گیا، پھر ابن قمئہ نے ان پر تلوار چلائی اور ان کے کندھے کو شدید زخمی کردیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی طرف بڑھے، جبکہ شیطان نے چیخ کر اعلان کردیا تھا کہ محمد قتل کردیا گیا، اور اس کا بہت سے مسلمانوں کے دلوں پر بہت ہی گہرا اثرپڑا تھا، چنانچہ جب کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خودکے نیچے سے پہچان لیا تو پوری طاقت کے ساتھ چیخے کہ اے مسلمانو! خوش ہوجاؤ، یہ دیکھو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے خاموش رہنے کو کہا اور مسلمان آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے اور آپ کولے کر گھاٹی کی طرف چلے گئے ان مجاہدین میں ابوبکر، عمر، علی اور حارث بن صمہ انصاری وغیرہم موجود تھے۔
اُبَیّ بن خلف کا قتل:
جب مسلمان مجاہدین نے اپنی پیٹھ پہاڑ کی طرف کردی تو ابی بن خلف نے اپنے ’’العوذ ‘‘ نامی گھوڑے پر سوار ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا، اور اللہ کے اس دشمن کا خیال تھا کہ وہ آپ کوقتل کردے گا، اس لیے کہنے لگا، اے محمد! اگر تم آج نجات پاگئے تو میں نجات نہیں پاؤں گا۔ یہ سن کر مجاہدین نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم میں سے کوئی ایک آدمی مڑ کر اس پر حملہ کرے؟ آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، جب وہ قریب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن صمہ سے نیزہ لیا اور اسے اُبی بن خلف کی ہنسلی کی ہڈی میں گھونپ دیا، اور اللہ کا دشمن شکست کھاکر بھاگ پڑا، یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ میں کہا کرتا تھا: اے محمد! میرے پاس العوذ نامی گھوڑا ہے جسے میں ہر روز مکئی کھلاتا ہوں، میں اسی پر سوار ہوکر تمہیں قتل کردوں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: بلکہ ان شاء اللہ میں تمہیں قتل کروں گا، چنانچہ ابی جب قریشیوں کے پاس واپس گیا تو اس کا خون منجمد ہوگیا اور کہنے لگا: مجھے محمد نے قتل کردیا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اللہ کی قسم! تمہاری عقل ماری گئی ہے، تمہیں تو کوئی تکلیف نہیں
|