Maktaba Wahhabi

657 - 704
14 ۔ وفدِ ہَمدَان: غزوہ تبوک سے واپسی کے بعدسن 9ہجری میں ہمدان کا وفد آیا۔ اُس میں مالک بن نمط، مالک بن اَیفع، ضمام بن مالک سلمانی اور عمیرہ بن مالک خارفی تھے۔ یہ لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو یمانی جُبّے اور عدنی عمامے پہنے ہوئے تھے اور مہری اور اَرحبی سواریوں پر سوار تھے۔ مالک بن نمط نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شعر پڑھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے اور فصیح کلام کے ذریعہ یاد کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک خط لکھ کر دیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ان چیزوں کی صراحت کر دی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو دیں تھیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن نمط کو اس کی قوم کے مسلمانوں کا امیر بنا دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس علاقہ میں بھیجا تاکہ وہ عام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ وہ وہاں دعوت کا کام چھ ماہ تک کرتے رہے، لیکن کسی نے قبول نہیں کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ خالد رضی اللہ عنہ کو واپس بھیج دیں۔ علی رضی اللہ عنہ ہمدان آئے، اور وہاں کے لوگوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط پڑھ کر سنایا، اور انہیں اسلام کی دعوت دی تو وہ سب کے سب اسلام لے آئے، اور علی رضی اللہ عنہ نے خط بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خط پڑھا گیا، تو آپ سجدہ میں گر گئے، پھر سر اٹھایا تو فرمایا: اللہ کی سلامتی ہو ہمدان پر، اللہ کی سلامتی ہو ہمدان پر۔ [1] 15 ۔ حاکمِ مَعَان کا قاصد: بیہقی نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے کہ فروہ بن عمرو حاکمِ معان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا قاصد بھیجا کہ وہ اسلام لے آیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک سفید خچر بطور ہدیہ بھیجا، فروہ رومیوں کی طرف سے اپنے آس پاس کے عربوں پر حاکم تھا۔ اس کا علاقہ معان اور قرب وجوار میں شام کی سر زمین تھی۔ جب اہلِ روم کو اس کے اسلام لانے کی خبر ہوئی تو اُسے بُلا بھیجا، اور پکڑ کر قید میں ڈال دیا۔ جب رومی اسے تختۂ دار پر چڑھانے کے بعد جمع ہوئے تو اُس نے ایک شعر کہا جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی سردارِ مسلمین کو خبر کر دے کہ میں نے اپنی ہڈیاں اور اپنے تختۂ دار پر لٹکائے جانے کو اللہ کے سپرد کردیا ہے۔ اس کے بعد ظالم رومیوں نے ان کی گردن مار دی اور فلسطین میں عِفری نامی اپنے ایک تالاب کے کنارے انہیں لٹکا دیا۔ اللہ اُن پر رحمتوں کی بارش کرے، اُن سے راضی ہوجائے، اور جنت اُن کا مقام بنائے۔ [2] یہ ہیں بعض اُن وفود کی خبریں جو سن نو اور دس ہجری میں مدینہ آئے، وفود سے متعلق آغازِ تحریر میں ہی میں نے لکھا ہے کہ ان وفود کی تعداد تقریباً ستر (70) تھی، یہاں میں نے چند کا بطور نمونہ ذکر کیا ہے۔ ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وفود جزیرہ عرب کے تمام اطراف وجوانب سے آ آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے اسلام اور اطاعت وتابعداری کا اعلان کرتے رہے، اس لیے کہ اب تمام اہالیانِ جزیرہ کو یقین ہوگیا تھا کہ بخوشی یا بے خوشی حکومتِ اسلامیہ کے لیے اپنی اطاعت وفرمانبرداری کے اعلان کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔
Flag Counter