Maktaba Wahhabi

587 - 704
بکھیرے اُن کے سامنے آگئی جو واویلا کر رہی تھی اور اپنا سینہ پیٹ رہی تھی۔ سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کی ایک ہی ضرب سے اس کا قصہ تمام کردیا، پھر صنم کی طرف اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ بڑھے اور اسے منہدم کرکے پاش پاش کر دیا۔ اس کے خزانہ میں کچھ بھی نہ ملا۔ [1] سریّہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (بنی جذیمہ کی طرف) : سالم نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال سن 8 ہجری میں خالد ابن ولید کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا، انہوں نے اُن کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، تو ’’ أَسْلَمْنَا ‘‘ یعنی ہم اسلام لے آئے کے بجائے ’’ صَبَأْنَا صَبَأْنَا ‘‘ ہم نے اپنا دین بدل دیا‘‘ کہنے لگے۔ یہ اُن کی تعبیر کی غلطی تھی جسے خالد رضی اللہ عنہ نے نہیں سمجھا، اور انہیں قتل اور پابند سلاسل کرنے لگے۔ اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنے قیدی کو اپنے ساتھ رکھا۔ دوسرے دن خالد رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قیدی کو قتل کردے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا، اور نہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا۔ جب ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا: اے اللہ! میں خالد کے اس فعل سے تیری جناب میں اپنی براء ت کا اعلان کرتا ہوں۔ [2] اس فوجی دستہ کے دورانِ سفر خالداور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنھما کے درمیان تھوڑی سی ناراضی ہوگئی، خالد رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو گالی دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اطلاع ہوئی تو فرمایا: تم لوگ میرے کسی صحابی کو گالی نہ دو، تم میں سے کوئی اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے گا تو اِن میں سے کسی کے مُدّ یا نصف مُدّ کے برابر بھی نہیں ہوگا۔ [3] قبائلِ عرب جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے: اسلام و کفر اور توحید وشرک کی اس فیصلہ کن جنگ کے بعد جزیرہ عرب میں بُت پرستی نے دم توڑ دیا اور اس کا خاتمہ ہوگیا، اور جو چند قبائل اب تک بُت پرستی پر قائم تھے، انہوں نے فوراً اپنے اپنے اسلام کا اعلان کر دیا، گویا انہیں مسلمانوں اور قریش کے درمیان جنگی محاذ آرائیوں کے خاتمہ کا انتظار تھا۔ اسی لیے فتحِ مکہ کے بعد باقی تمام مشرک قبائل نے فوراً اسلام کا اعلان کر دیا۔ عمر بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عرب کے لوگ فتحِ مکہ کا انتظار کر رہے تھے۔ کہتے تھے: اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) مکہ والوں پر غالب آگیا تو ثابت ہو جائے گا کہ وہ سچا نبی ہے۔ چنانچہ جوں ہی مکہ فتح ہوا، سب نے اسلام قبول کرنے میں تیزی دکھائی۔ اس لیے کہ قریش ہی تو لوگوں کے امام وہادی اور بیت حرام کے پاسبان تھے۔ عربوں کا عقیدہ تھا کہ حرم پر اسی کا قبضہ ہوگا جو حق پر ہوگا، اور یہ بات اصحابِ فیل کی ہلاکت سے تو پایۂ یقین کو پہنچ چکی تھی۔ اسی لیے جب مکہ فتح ہوگیا، اور قریش کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جُھک گئے، تو دیگر قبائلِ عرب جوق در جوق ہر چہار جانب سے آکر اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔ اسی بات کی خبر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النصر میں دی ہے:
Flag Counter