شجاع رضی اللہ عنہ یہ خط لے کر حارث بن ابی شمر کے پاس گئے، جو اُن دنوں دمشق میں تھا، اور حمص سے چل کر اِیلیاء آیا تھا تاکہ وہاں قیصر کا استقبال کرے۔ شجاع رضی اللہ عنہ اس کے دروازہ پردو یا تین دن ٹھہرے رہے۔ بالآخر اس کے دربان سے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں۔ اُس نے کہا: تمہاری رسائی اُس تک نہیں ہوسکتی یہاں تک کہ وہ فلاں اور فلاں دن باہر نکلے گا۔ وہ رومی دربان شجاع رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مختلف باتیں پوچھتا رہا، اوروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے بارے میں اُسے بتاتے رہے، جس سے وہ متأثر ہوکر رونے لگتا، اور کہتا: میں نے انجیل پڑھی ہے، اُس میں اِس نبی کی صفات مذکور ہیں، اورمیں اُن پر ایمان لاتا ہوں، اور اُن کی تصدیق کرتا ہوں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں حارث مجھے قتل نہ کردے۔ شجاع کہتے ہیں: وہ دربان میری بہت عزت کرتا، اور میری میزبانی کرتا۔
دربان کے کہنے کے مطابق حارث ایک دن نکلا، اوراپنے سر پر تاج رکھ کر لوگوں کے لیے بیٹھا، مجھے اس سے ملنے کی اجازت ملی۔ میں نے اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب دیا۔ اُس نے اُسے پڑھ کر ایک طرف پھینک دیا اورکہنے لگا: یہ کون ہے جو مجھ سے میری بادشاہت چھین لینا چاہتا ہے۔ میں چل کر اسے دیکھتا ہوں۔
ابن سعد نے یہ اضافہ کیا ہے: اگر وہ یمن میںہوتا، تو میں اس کے پاس جاتا، میرے سامنے لوگوں کو پیش کرو، چنانچہ اس کے لاؤ لشکر کے لوگ اس کے سامنے پیش کیے جاتے رہے، یہاں تک کہ وہ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ پھر اُس نے گھوڑوں کو تیار کرنے کا حکم دیا۔ پھر شجاع رضی اللہ عنہ سے کہا: جاکر اپنے آدمی کو جو کچھ دیکھا ہے بتادینا۔
حارث نے قیصر کو سب کچھ لکھ بھیجا، اور اُسے اپنے ارادہ سے مطلع کردیا، قیصر نے اسے فوراً لکھا کہ وہ مدینہ کی طرف جانے کا ارادہ ترک کردے۔ اور اِیلیاء میں اس سے آکر ملے۔ شجاع کہتے ہیں: میں ابھی دمشق میں ہی تھا کہ قیصر کی طرف سے اس کے خط کا جواب آگیا۔ اُس نے اُسے پڑھنے کے بعد مجھے فوراً بلایا، اور پوچھا: تم کب اپنے آدمی کے پاس جانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: کل۔ اُس نے میرے لیے سو مثقال سونے کا حکم دیا، اور اُس کے دربان نے مجھے زادِ سفر اور کپڑے دیے، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومیرا سلام کہہ دینا۔
میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا ماجرا کہہ سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی بادشاہت ختم ہوگئی۔ اور میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دربان کا سلام سنایا اور وہ بات سنائی جو اس نے کہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ حارث بن ابی شمر فتحِ مکہ کے سال مرگیا۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامۂ گرامی یمامہ کے ہوذہ بن علی کے نام:
حدیبیہ سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بادشاہوں کے نام خطوط لکھے، اُن میں یمامہ کا ہوذہ بن علی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خط دے کر اس کے پاس سلیط بن عامر عامری رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوبِ گرامی کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے:
’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ کے رسول محمد کی طرف سے ہوذہ بن علی کے نام۔ اللہ کی سلامتی ہو اس پر جس نے راہِ حق کی
|