Maktaba Wahhabi

425 - 704
کی خواہش کے مطابق دشمنوں کے دل مرعوب ہوچکے تھے، اور مدینہ کے آس پاس کے تمام علاقوں پر مسلمانوں کا رعب ودبدبہ بیٹھ چکا تھا، اس لیے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ ماہ تک مدینہ میں اسلامی اسٹیٹ کی جڑوں کو مضبوط کرتے رہے، مسلمان مرد اور عورتوں کو قرآن وسنت کی تعلیم دیتے رہے، اور اسلامی رشدوہدایت کے مطابق ان کی تربیت کرتے رہے، تاکہ مستقبل میں پوری دنیا کے لیے نمونہ بن کر اُبھریں۔ اور تقریباً چھ ماہ کے بعد آپؐ کو خبر ملی کہ شام کی سرحد پر واقع دومۃ الجندل کے ارد گرد رہنے والے قبائل مسافروں کو دن دہاڑے لوٹ لیتے ہیں، اور مدینہ میں موجود مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے عربوں کی ایک بڑی تعداد کو جمع کررہے ہیں۔ یہ سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ ان بھیڑیوں کے ناخن کاٹ دینا اور ان کے دانت توڑ دینا نہایت ضروری ہے، اس لیے مدینہ میں سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا، اور ماہِ ربیع الأول سن 5 ہجری میں ایک ہزار صحابہ کرام کے ساتھ چل پڑے، اور بنی عذرہ کے ایک آدمی کو رہنما کے طور پر اپنے ساتھ لے لیا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ راستے کا بڑا ماہر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج لے کر خفیہ طور پر غیر مانوس راستے سے چلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو چلتے تھے اور دن میں کہیں چھپ جاتے تھے اس لیے کہ زمانہ گرمی کا تھا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً پندرہ راتوں میں راستہ طے کیا، جب دومۃ الجندل والوں کو آپ کی آمد کی خبر ہوئی تو بہت زیادہ خوفزدہ ہوئے اور فوراً ہر طرف بکھر گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چوپایوں اور چرواہوں پر قبضہ کرلیا، اور کچھ لوگوں کو قتل کیا اور کچھ لوگ بھاگ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علاقہ میں کئی دن تک قیام کیا، اور کئی فوجی دستے بھیجے، جو بحفاظت تمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر آگئے، ایک دستہ والے نے ایک آدمی کو گرفتار کیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی، تو وہ مسلمان ہوگیا۔ اسی غزوہ کے موقع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیینہ بن حصن الفزاری سے صلح کا معاہدہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غنیمت کے چوپایوں کے ساتھ مدینہ بحفاظت تمام لوٹ آئے۔ [1] شراب نوشی کی حرمت: اسی سن 2 ہجری میں شراب حرام کردی گئی جیسا کہ بلاذری نے اپنی کتاب انساب الأشراف (1/272) میں ذکر کیا ہے۔ [2]
Flag Counter