کا حملہ روکنے سے کلّی طور پر عاجز ہوگئے، اس لیے وہ اس قلعہ سے نکل کر ’’صعب‘‘ نامی قلعہ میں چلے گئے، اور مسلمان ’’ناعم‘‘ نامی قلعہ میں داخل ہوگئے اور اس پر قبضہ کرلیا، اور یہودیوں کی شکست کی ابتدا ہوگئی۔
قلعۂ صعب کی فتح:
اس قلعہ میں انواع واقسام کے کھانے، گھی، چوپائے اور دیگر اساب ومتاع اور پانچ سو جنگی فوجی تھے، نیز قلعۂ ناعم میں موجود جنگی فوجی بھی اسی میں کھِسک آئے تھے۔ مسلمانوں نے اس قلعہ کا محاصرہ اپنے قائد حباب بن منذر انصاری رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کیا، جو تین دن تک رہا۔ مسلمان مجاہدین اِن ایام میں بہت پریشان ہوئے، اُن کے پاس کھانے پینے کو کچھ بھی نہ رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا: اے اللہ ! مسلمان مجاہدین کی حالت سے تو خوب واقف ہے کہ وہ نہایت کمزور ہوچکے ہیں، اور میرے پاس انہیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اس لیے خیبر کے اس سب سے بڑے اور مال ومتاع کے اعتبار سے سب سے مالدار قلعہ کو اُن کے لیے کھول دے۔
دوسری صبح یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف زبردست جنگ کی اور ان پر خطرناک حملہ کیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی صفیں بکھر گئیں اور پسپا ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے جو اپنے گھوڑے سے اُتر کر ایک طرف کھڑے تھے اور حباب بن منذر رضی اللہ عنہ عَلَمِ جہاد لیے اپنے گھوڑے پر سوار دشمنوں کی طرف تیر چلارہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بآواز بلند پکارا اور جہادپر اُبھارا، اورانہیں خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیبر اور اس کے اموالِ غنیمت کا وعدہ کیا ہے۔ مجاہدین آپ کی آواز سن کر، اپنے علَمِ جہاد کے ارد گرد جمع ہوگئے اور حباب رضی اللہ عنہ انہیں ساتھ لیے آگے بڑھنے لگے اور یہود پیٹھ پیچھے مُڑ کر بھاگے، اور قلعہ بند ہوکر مسلمانوں پر دیوار کے اوپر سے زبردست سنگ باری کرنے لگے، اس لیے مسلمان دوبارہ پیچھے ہٹ گئے۔
یہودیوں نے مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، اور اپنی جان ہتھیلی پر لے کر باہر نکل پڑے اور قلعہ کے دروازے پر گھمسان کی جنگ ہونے لگی، لیکن مسلمان ثابت قدم رہے، اور یہود دوبارہ پیٹھ پھیر کر قلعہ کے اندر چلے گئے۔ اس بار مسلمان بھی ان کے پیچھے قلعہ میں داخل ہوگئے اور یہودیوں کو قتل اور قید وبند کرنے لگے، یہاں تک کہ انہوں نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور یہودیوں کے لیے راہِ فرار کو آسان کردیا، اور اس کی دیوار پر چڑھ کر بآواز بلند تکبیر کہنے لگے، اور مالِ غنیمت جمع کرنے لگے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی تھی۔
یہ سب دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدشہ ہوا کہ کہیں مسلمان مالِ غنیمت کو دیکھ کر جہاد سے غافل نہ ہوجائیں، اس لیے فوراً ایک منادی کو بھیجا کہ مجاہدین جو چاہیں کھائیں اور اپنے جانوروں کو کھلائیں، لیکن کوئی چیز اُٹھاکر اپنے شہر لے جانے کی کوشش نہ کریں۔
اُس دن اِس قلعہ کے پاس جنگ میں عامر بن سنان رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے جن کا ذکر اُوپر آچکا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کے لیے بھلائی کی بشارت دی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عامر کے لیے دو اجر ہیں۔ قلعہ کے دروازے کے پاس تین دیگر مجاہدین بھی جان بحق ہوئے۔ ابو سیاح، جو بدری صحابی تھے، اور عدی بن مرہ بن سراقہ اور حارث بن حاطب رضی اللہ عنھما جو
|