وَلستُ أبالي حین أقتلُ مسلمًا
علي أيّ جنب کان في اللّٰہ مصرعي
وذلک في ذات الإلہ وإن یشأ
یبارک علی أوصال شلو ممزَّع
جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگرمیں بحیثیت مسلمان قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو قتل کیا جائے گا؟ اور یہ جو کچھ میرے ساتھ ہورہا ہے اللہ کی خاطر ہورہا ہے، اور اگر اللہ چاہتا ہے تو جسم کے کٹے ہوئے ٹکڑوں پر بھی اپنی برکت نازل فرماتا ہے۔
پھر ابو سروعہ عقبہ بن حارث بن عامر اُٹھ کر ان کے قریب آیا اور انہیں قتل کردیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے ہر مسلمان کے لیے جسے عذاب دے کر قتل کیا جاتا ہے نماز پڑھنے کی سنت جاری کی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اسی دن اس واقعہ کی خبر دے دی۔
قریشیوں کو جب عاصم بن ثابت کے قتل کیے جانے کی خبر ہوئی تو انہوں نے کچھ لوگوں کو بھیجا کہ وہ عاصم رضی اللہ عنہ کے جسم کا کوئی حصہ لے آئیں جس سے وہ انہیں پہچان لیں، اس لیے کہ عاصم رضی اللہ عنہ نے کفارِ قریش کے ایک بہت بڑے سردار کو قتل کیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے عاصم رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے بِھڑوں کی ایک جماعت بھیج دی، اور کفار ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ نہیں سکے۔
زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما کو صفوان بن امیہ نے خرید لیا، اُس نے انہیں اپنے باپ امیہ بن خلف کے بدلے میں قتل کردیا جو بدر میں قتل کیا گیا تھا، اور ابو سفیان نے ان سے ان کے قتل کیے جانے سے پہلے پوچھا: اے زید! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم پسند کروگے کہ اس وقت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہاری جگہ ہوتا اور اس کی گردن مار دی جاتی اور تم اپنے اہل وعیال میں ہوتے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اس کو بھی پسند نہیں کروں گا کہ اس وقت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) جہاں ہیں ان کے پاؤں میں ایک کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے بال بچوں میں بیٹھا رہوں۔ ابو سفیان نے کہا: میں نے کسی انسان کو کسی دوسرے سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محبت اصحابِ محمد ( رضی اللہ عنہم)نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کی ہے۔ [1]
سریہ بئر معونہ:
ماہِ صفر سن چار ہجری میں ہی بئر معونہ کا غمناک واقعہ پیش آیا، جس کا سبب یہ تھا کہ ابوبراء عامر بن مالک بن جعفر عامری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ہدیہ لے کر مدینہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبرائ! میں کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتا، اگر تم چاہتے ہو کہ میں اسے قبول کرلوں، تو اسلام لے آؤ، پھر آپؐ نے اس کے سامنے اسلام پیش کیا، لیکن وہ اسلام نہیں لایا، اور نہ اس کا انکار کیااور کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ جس چیز کی طرف بلارہے ہیں وہ بہت ہی اچھی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ اپنے کچھ صحابہ کو اہلِ نجد کے پاس دعوتِ اسلام دینے کے لیے بھیجتے، مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کرلیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ان کے بارے میں اہلِ نجد سے ڈرتا ہوں۔
ابوبراء نے کہا: (جو اپنی قوم کا سردار تھا) کہ میں ان کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے
|