Maktaba Wahhabi

358 - 704
چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحفاظت تمام اور کامیاب وکامران واپس لوٹے تو عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار نیام سے کھینچ لی اور رات کی تاریکی میں اس عصماء بنت مروان یہودیہ کے گھر میں گھس گئے، اس وقت وہ سوئی ہوئی تھی، انہوں نے اس کے سینے میں اپنی تلوار اُتاردی، پھر لوٹ کر مسجد نبوی میں آئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم نے مروان کی بیٹی کو قتل کردیا، انہوں نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ! اس کے لیے مجھ پر کچھ ذمہ داری آتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے قتل پر کوئی آدمی اعتراض کرنے والا نہیں ملے گا جو اس کا بدلہ لینا چاہے۔ یہ واقعہ ماہِ رمضان سن دو ہجری کا ہے۔ [1] ابو عفک یہودی کا قتل: یہ شخص بھی مسلمانوں میں شرانگیزی اور ایذا رسانی کا بہت بڑا مجرم تھا، مشرکوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ورغلاتا تھا، اور اپنے اشعار اورکلام میں مسلمانوں کی ہجو کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: کون ہے جو اس خبیث کو قتل کردے؟ سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس بات کی نذر مانتا ہوں کہ ابو عفک کو قتل کردوں گا، یا اس راہ میں اپنی جان دے دوں گا۔ سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ اس کام کے لیے موقع کی تلاش میں رہے، یہاں تک کہ ماہِ رمضان سن دو ہجری کی ایک رات میں اس کے گھر پہنچے اور اسے قتل کردیا، اور اپنی نذرپوری کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نافذ کرنے کے بعد اپنے گھر واپس آگئے۔ یہی ہے بدلہ ان لوگوں کا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ((إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ)) [المائدہ: 33] ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں، اور زمین میں فساد پھیلانے میں لگے رہتے ہیں، ان کا بدلہ یہ ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا انہیں سولی پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیے جائیں، یا انہیں جلا وطن کردیا جائے، یہ رسوائی ان کے لیے دنیا میں ہے، اور آخرت میں انہیں عذابِ عظیم دیا جائے گا۔ ‘‘ [2]
Flag Counter