محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آلِ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔ [1]
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ کی چیز کھاتے تھے اور صدقہ کی چیز نہیں کھاتے تھے۔ [2]
سُننِ بیہقی میں عبد المطلب بن ربیعہ بن الحارث سے مروی حدیث آئی ہے: یہ صدقات لوگوں کی میل ہے، یہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آلِ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنھما نے صدقہ کی ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کخ کخ ‘‘ تاکہ حسن رضی اللہ عنہ اُسے پھینک دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے ہیں؟ [3]
17 ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں دوسروں کے لیے حرام کر دی گئیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپؐ کے بعد دوسروں پر حرام کر دی گئی تھیں۔ یہ خصوصیت کسی اور نبی کو حاصل نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ)) [الأحزاب: 6]
’’ نبی مومنوں کے ان کے اپنے آپ سے زیادہ حقدار ہیں، اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔‘‘ …اس لیے کسی مؤمن کے لیے باتفاقِ امت حلال نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن بیویوں میں سے کسی سے شادی کرتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زندہ رہیں۔ اس لیے کہ وہ سب جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہوں گی۔
18 ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سِدرۃ المنتہیٰ کے پاس بات کی:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہم خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سِدرۃ المنتہیٰ کے نزدیک بات کی، جبکہ موسیٰ علیہ السلام سے مقدس وادیٔ طور میں بات کی۔ اللہ نے سورۃ النجم میں اسی طرف اشارہ کیا ہے، فرمایا ہے:
((فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴿10﴾ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ﴿11﴾ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴿12﴾ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿13﴾ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ﴿14﴾ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ﴿15﴾ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ﴾)) [النجم:10- 16]
’’تب اُس نے اللہ کے بندے پر وہ وحی نازل کی جو اُس نے (اُس وقت) نازل کی۔ رسول اللہ نے جو کچھ دیکھا اُن کے دل نے اُس کی تکذیب نہیں کی۔ کیا تم لوگ اُن سے اُس بارے میں جھگڑتے ہو جو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اور اُنہوں نے اُس فرشتہ کو دوسری بار بھی دیکھا، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ جس کے قریب ہی جنت الماویٰ ہے۔ جب اُس سِدرہ کو وہ چیز ڈھانک رہی تھی جو اُسے ڈھانک رہی تھی۔ ‘‘
امام مسلم رحمہ اللہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے جو حدیثِ اسراء روایت کی ہے، اُس میں آیا ہے: پھر جبریل علیہ السلام مجھے سِدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے گئے، جس کے پتّے ہاتھی کے کان کی طرح اور اس کے پھل گھڑوں کی مانند تھے۔ جب اُس پر اللہ کا حکم
|