نے غزوہ حنین کے دن کہا: اِن کافروں کا صفایا کرو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ کیا۔ [1]
پھر تو مسلمانوں کو کافروں پر طیش آگیا، انہیں گھیر گھیر کر قتل کرنے لگے یہاں تک کہ ان کی اولاد کو بھی قتل کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ملی تو اس سے منع فرمایا، اور کہا: جو کسی کافر کو قتل کرے گا اس سے چھینا ہوا مال اسی کا ہوگا۔ مسلمانوں نے اس دن بانوے (92) کافروں کو قتل کیا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے تنہا اُس دن بیس کافروں کو قتل کیا، اور اُن کا مال واسباب لے لیا۔ [2]
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک مشرک کے کندھے پر ضرب لگائی جو ایک مسلمان کے اوپر بیٹھا ہوا تھا، وہ مشرک مرگیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب مسلمان اپنی جگہ پر واپس آگئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام کر رہے تھے تو فرمایا: جس نے کسی مشرک کو قتل کیا، اور اس کے پاس اس کی دلیل ہے تو اس کا چھینا ہوا مال اسی مسلمان کا ہوگا۔ یہ سن کر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: کون میرے لیے گواہی دے گا؟ پھر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنی بات دُہرائی۔ تو ابوقتادہ رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوئے اور کہا: کون گواہی دے گا؟ پھر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تیسری بار کہا، تو ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے ابو قتادہ! کیا بات ہے؟ تو انہوں نے پورا واقعہ بیان کیا۔ تب ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: اے اللہ کے رسول! یہ سچ کہتے ہیں، ان کے مقتول کا مالِ مسلوب میرے پاس ہے۔ آپ انہیں اپنے حق سے دست بردار ہونے پر راضی کر دیجیے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہؐ ایسا نہیں کریں گے کہ اللہ کے ایک شیر کا حق تم کو دے دیں گے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے قتال کرتا رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ ہے، تم اِس کا مال اسے دے دو۔ چنانچہ اُس نے اُن کا حق واپس کر دیا۔ لیث کی حدیث میں ہے: ہرگز نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے کہ وہ قریش کے ایک معمولی انسان کو دیں گے، اور اللہ کے ایک شیر کومحروم کر دیں گے۔ [3]
اُمّ سُلَیم رضی اللہ عنھا کی ثابت قدمی:
اُمّ سُلیم (امّ انس) رضی اللہ عنھا اُن صحابہ کرام کے ساتھ تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ غزوہ حنین میں وہ ایک خنجر لیے ہوئی تھیں۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ دیکھئے، اُمّ سُلَیم کے پاس خنجر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ خنجر کس لیے ہے؟، اُم سُلیم رضی اللہ عنھا نے کہا: اگر کوئی مشرک میرے قریب آئے گا تو اُس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے۔ اُمّ سُلیم رضی اللہ عنھا نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہم ان لوگوں کو قتل نہ کر دیں جو فتحِ مکہ کے دن اسلام لائے ہیں، اور آپ نے اُن پر احسان کرکے انہیں چھوڑ دیا تھا، اور آج وہ سب آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے ہیں، کیا وہ لوگ منافق ہیں اور قتل کیے جانے کے مستحق ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے امّ سُلیم، اللہ ہمارے لیے کافی ہوا، اور ہم پر احسان کیا ہے۔ [4]
|