میں سوچا کہ کسی راہی سے مدد لوں گی، تاکہ اپنے شوہر کے پاس پہنچ سکوں ، جب تنعیم کے پاس پہنچی تو میری ملاقات عثمان بن طلحہ بن ابو طلحہ سے ہوئی، انہوں نے مجھے سے پوچھا: اے ابو امیہ کی بیٹی! کہاں کا ارادہ ہے ؟ میں نے کہا : میں اپنے شوہر کے پاس مدینہ جانا چاہتی ہوں ، انہوں نے پوچھا: کیا تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم ! نہیں ۔ مگر اللہ کی ذات اور میرا یہ بیٹا۔
عثمان نے کہا: اللہ کی قسم! میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا،پھر انہوں نے اونٹ کی رسی تھام لی اور چل پڑے ، اللہ کی قسم! میں نے اپنی زندگی میں اُن سے زیادہ کسی دوسرے عربی کو کریم النفس اور شریف النفس نہیں دیکھا۔ جب وہ کسی جگہ رکتے تو اونٹ کو بیٹھاکر مجھ سے الگ ہوجاتے اور جب میں اُتر جاتی تو اونٹ کو الگ لے جاتے اس سے زادِ سفر اُتار دیتے اور اسے درخت میں باندھ دیتے ، پھر مجھ سے دور کسی درخت کے پاس چلے چاتے اور اس کے نیچے لیٹ جاتے۔ جب روانگی کا وقت قریب ہوتا تو میرے اونٹ کو تیار کرکے میرے قریب کردیتے، پھر مجھ سے الگ ہٹ جاتے اور کہتے: سوار ہوجاؤ، اور جب میں سوار ہوجاتی تو آکر اس کی رسی پکڑلیتے اور آگے چل پڑتے، یہاں تک کہ کسی آگے کی منزل پر رکتے، تو وہاں اسی طرح کرتے، اور اس طرح انہوں نے مجھے مدینہ پہنچا دیا، جب ان کی نظر قبا میں بنی عمرو بن عوف کی بستی پر پڑی تو کہا: تمہارا شوہر اسی بستی میں ہے ، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ وہیں ٹھہرے ہوئے تھے ، جاؤ ان کے پاس چلی جاؤ، پھر وہ مکہ واپس چلے گئے۔
سیّدہ امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی تھیں، اللہ کی قسم مجھے مسلمانوں کا کوئی ایسا گھرانا نہیں معلوم جسے آلِ ابو سلمہ جیسی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہو، اور میں نے اپنی زندگی میں عثمان بن طلحہ سے زیادہ کریم وشریف انسان نہیں دیکھا۔ [1]
یہ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لے آئے، اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آگئے ، فتحِ مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی کنجی ان کے اور ان کے چچا زاد بھائی شیبہ کے حوالے کردی، اور جس طرح ان کے پاس وہ کنجی زمانۂ جاہلیت میں رہی ، اسی طرح اسلام آنے کے بعد بھی ان کے پاس رہنے دینے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کاقول نازل ہوا:
((إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا)) [النساء:58]
’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں تک پہنچادو۔‘‘
ہجرتِ عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ):
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عیاش بن ربیعہ اور ہشام ابن العاص( رضی اللہ عنھما ) کے ساتھ یہ بات طے کی کہ ہم لوگ میضاۃ نامی بنی غفار کے تالاب کے پاس (جو مقام سرف کے اوپر مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے ) اکٹھے ہوں گے اور وہاں سے ایک ساتھ ہجرت کے لیے روانہ ہوں گے، اور ہمارے درمیان یہ بات طے ہوگئی کہ ہم میں سے جو شخص صبح کے وقت وہاں نہیں پہنچے گا اسے محبوس مان لیا جائے گا، اور اس کے دونوں ساتھیوں کو آگے بڑھ جانے کا اختیار ہوگا، چنانچہ ہشام بن العاص کومکہ میں محبوس کردیا گیا ۔ مدینہ پہنچ کر ہم لوگ بنی عمروبن عوف میں ٹھہرگئے، ابو جہل بن ہشام اور حارث بن ہشام،
|