آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ ذی الحجہ میں مدینہ پہنچے، اوروہاں ذی الحجہ کے باقی ایام اورماہِ محرم کے کچھ دن قیام فرمایا، پھر خیبر کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فوجی پروگرام بالکل صیغۂ راز میں رکھا، اسی لیے یہودیوں کو مسلمانوں کی آمد کی اطلاع اُس وقت ہوئی جب وہ اپنے قلعوں میں ہر چہار جانب سے مسلمانوں کے ذریعہ محصور تھے۔
سِباع بن عُرفطہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم :
امام ابن خزیمہ ، امام بخاری اور امام طحاوی رحمہم اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں جب مدینہ پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے، اور مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ سِباع بن عُرفطہ رضی اللہ عنہ تھے جن کے پیچھے ہم نے صبح کی نماز پڑھی، انہوں نے ہمیں زادِ سفر دیا، اور ہم وہاں سے روانہ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خیبر آگئے۔ اور بیہقی نے اپنی سند کے ذریعہ بنی غِفار کے چند اشخاص کا قول نقل کیا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے لیے روانہ ہوچکے تھے، اور مدینہ میں اپنا خلیفہ بنی غِفار کے ایک آدمی کو مقرر کردیا تھا جس کا نام سِباع بن عُرفطہ رضی اللہ عنہ تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُن کے پیچھے نمازِ صبح ادا کی جس کی پہلی رکعت میں انہوں نے ’’کہیعص‘‘ اور دوسری میں ’’ویل للمطففین ‘‘ کی تلاوت کی۔ [1]
لشکرِ اسلام میدانِ خیبر میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں شریک نہیں ہو ا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لشکرِ خیبر میں نہ جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی صحابہ کرام گئے جو عمرۂ حدیبیہ کے لیے گئے تھے، اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ)) (الفتح:15)
’’ عنقریب جہاد سے پیچھے رہ جانے والے کہیں گے جب تم لوگ اموالِ غنیمت لینے کے لیے چلو گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ جانے دو۔‘‘
گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ملا کہ وہ لشکرِ خیبر میں اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو نکلنے کی اجازت نہ دیں جو سفرِ حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں تھے، اس لیے کہ غنائم خیبر کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے صرف اُن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کیا تھا جو حدیبیہ میں گئے تھے، اور اُن کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی، اُن میں سے دو سو گھوڑ سوار تھے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہی مجاہدینِ حدیبیہ کے ساتھ روانہ ہوئے، اور اپنے ساتھ دو ماہرینِ راہ لے لیے، اور سفر کرکے خیبر وغطفان کے درمیان وادئ رجیع میں فروکش ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈر تھا کہ قبیلۂ غطفان کے لوگ کہیں یہود کی مدد کے لیے نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی وادی میں رات گزاری، اور صبح کے وقت خیبر کی طرف چل پڑے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت منزل کی طرف چلتے ہوئے عامر بن سِنان سے کہا: اے ابن الاکوع ہمیں کوئی ترانہ سناؤ، تو انہوں نے مندرجہ ذیل اشعار سنائے:
اَللّٰہُمَّ لَولَا اَنْتَ مَااہْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا
|