Maktaba Wahhabi

230 - 704
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابوطالب سے متعلق اپنے کلام کے آخر میں لکھا ہے: اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں مشرکین کے لیے طلبِ مغفرت سے نہ روکا ہوتا تو ہم ابوطالب کے لیے ضرور طلبِ مغفرت کرتے اور ان کے لیے رحم کی دعا کرتے۔ اس لیے کہ وہ جب تک زندہ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحابِ کرام کی طرف سے دفاع کرتے رہے اور ہر ممکن ذریعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید وحمایت کرتے رہے۔ [1] سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی وفات: امّ المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنھا نے ابوطالب کی وفات کے صرف تین دن بعد ماہِ رمضان کی دس تاریخ کو وفات پائی ، جیسا کہ میں نے ابھی کچھ پہلے لکھا ہے، اور ان کی وفات ہجرت سے تین سال پہلے اور معراج کی رات میں پانچوں نمازیں فرض ہونے سے قبل ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر پینسٹھ سال تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچاس سال کے تھے، اور ابوطالب کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کا نام(عام الحزن) ’’غم کا سال‘‘ رکھ دیا تھا، اس لیے کہ ان دونوں کی موت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو بڑی بھاری مصیبتیں آپڑی تھیں؛ ابوطالب کی موت کی مصیبت جو شیاطینِ مکہ سے ان کی حفاظت کرتے تھے، اور خدیجہ رضی اللہ عنھا کی وفات کی مصیبت جو ان کی تصدیق کرتی تھیں، انہیں دلاسا دیتی تھیں، اور ہرگام پر ان کا ساتھ دیتی تھیں۔ امام احمد رحمہ اللہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے ، وہ کہتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خدیجہ رضی اللہ عنھا کا ذکر کرتے تو ان کی بے حد تعریف کرتے، ایک دن مجھے غیرت آگئی تو میں نے کہا:آپ اس سُرخ منہ والی کو کتنا یاد کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے اچھی بیوی دے دی ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے مجھے خدیجہ سے بہتر بیوی نہیں دی ہے ، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیںجب لوگوں نے میرا انکار کردیا، اور اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا، اور اس وقت اپنے مال کے ذریعہ میری مدد اور دل دہی کی ، جب لوگوں نے مجھے محروم کردیا، اور اللہ نے مجھے اُن کے بطن سے اولاد دی، جب کہ مجھے دوسری عورتوں کی اولاد سے محروم رکھا۔ [2] اور امام بخاری رحمہ اللہ نے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے فضائل کے بیان میں روایت کی ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ خدیجہ آرہی ہیں، ان کے پاس ایک برتن میں سالن، یا کھانا یا پینے کی چیز ہے، جب وہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کا، اور میرا سلام پہنچادیجیے اور انہیں جنت میں بانس کے بنے ہوئے ایک گھر کی خوشخبری دے دیجیے جس میں نہ شور وشغب ہوگا نہ کوئی پریشانی۔[3] امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اللہ کا ان کے لیے جبریل علیہ السلام کے ہاتھ سلام بھیجنا ایک ایسی امتیازی خوبی وعظمت ہے جو ان کے سوا دنیا میں کسی عورت کے لیے نہیں جانی جاتی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے ، انہو ں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے ایسی غیرت نہیں کھائی، جیسی خدیجہ سے ،ا س کا سبب یہ تھا کہ میں بہت ہی کثرت سے ان کا ذکر خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنتی تھی، حالانکہ آپؐ
Flag Counter