((لَّقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا)) [الفتح: 27]
’’ اللہ نے اپنے رسول کا برحق خواب سچ کر دکھایا، اگر اللہ نے چاہا تو تم یقینا مسجد حرام میں داخل ہوگے، دراں حالیکہ تم امن میں ہوگے، اپنے سروں کے بال منڈائے یا کٹائے ہوگے، تم خوف زدہ نہیں ہوگے، پس اُسے وہ معلوم تھا جو تم نہیں جانتے تھے، چنانچہ اُس نے اِس سے پہلے تمہیں ایک قریب کی فتح عطا کی۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ بطن یأجَج جائیں اور ہتھیاروں کی نگرانی کریں، اور وہ صحابہ کرام آجائیں جنہوں نے اب تک عمرہ نہیں کیا تھا تاکہ عمرہ ادا کرلیں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تین رات قیام فرمایا، چوتھے دن ظہر کے وقت سہیل بن عمرو اورحویطب بن عبد العُزّیٰ آئے اور کہنے لگے کہ آپ کو دی گئی مہلت ختم ہوگئی ہے، اس لیے آپ یہاں سے نکل جائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہاں ایک عورت سے شادی کر لی ہے، اگر میں یہاں رُک کر اس سے ملاقات کر لوں اور تم لوگ اور ہم لوگ اس مناسبت سے ایک ساتھ کھانا کھالیں تو تمہارا کوئی نقصان تو نہیں ہوگا۔(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پہنچ کر میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا تھا، اور اُن سے آپ کی شادی عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے کرائی تھی اس لیے کہ میمونہ رضی اللہ عنہ کی بہن اُمّ الفضل عباس رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں) دونوں قاصدوں نے کہا: ہم اللہ کا اور عہد کا واسطہ دیتے ہیں کہ تم لوگ یہاں سے روانہ ہو جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں میں رختِ سفر باندھنے کا اعلان کر دیں، اور کہا: اب یہاں کوئی مسلمان شام تک نہ رُکے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ چلتے وقت میمونہ( رضی اللہ عنہما ) کو اونٹنی پر سوار کر کے لے آئیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامِ سَرِف میں قیام فرمایا، یہاں تک کہ میمونہ رضی اللہ عنھا آپ کے پاس وہاں آگئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے اُسی جگہ پہلی بار ملاقات کی۔ مکہ سے چلتے وقت نادان مشرکوں اور ان کے بچوں نے میمونہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ رہ جانے والے صحابہ کرام کو اذیت پہنچائی تھی۔ پھر سَرِف سے روانہ ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آگئے۔
عمرۃ القضاء کے مفید نتائج میں سے یہ بھی تھا کہ مکہ کے بہت سے کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خوشگوار اَحوال سے بہت متأثر ہوئے اور اسلام کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ انہوں نے دیکھا کہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کل مکہ میں ذلیل کیے جاتے تھے، آج اسی مکہ میں سر اُٹھا کر بے خوف وخطر چل رہے ہیں، تو بڑے متأثر ہوئے۔ سچ ہے کہ عزت صرف اللہ، اُس کے رسول اور مؤمنوں کے لیے ہے۔
سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنھا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی:
قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں عمرہ کے وقت میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا تھا، انہوں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دیا تھا۔ انہی کے بارے میں آیت نازل ہوئی تھی:
{وَامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ} [الأحزاب:50]
|