سایہ دار مکانوں میں شدید گرمی میں اُن کی آمد کا انتظار کرتی رہیں، اور وہ زادِ سفر تیار کرکے فوراً روانہ ہوگئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دسویں دن پہنچ گئے۔ اِن کی ملاقات عُمیر رضی اللہ عنہ بن وہب جُمحی سے جاتے ہوئے وادیٔ قریٰ میں ہوگئی، وہاں دونوں ایک ساتھ آگے بڑھے۔ جب تبوک کے قریب پہنچ گئے تو ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عُمیر! میرے گناہ بہت ہیں، اور تمہارا کوئی گناہ نہیں ہے، اس لیے کوئی حرج نہیں کہ تم میرے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچو۔ عُمیر نے اُن کی بات مان لی۔ ابوخیثمہ رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ کرے یہ ابو خیثمہ ہو۔ لوگوں نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ! یہ ابو خیثمہ ہی ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوخیثمہ! تم نے اپنے حق میں بہت اچھا کیا کہ آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لیے دوسرے کلماتِ خیر بھی کہے اور دعا کی۔[1]
بارش کے لیے دعائے نبوی:
ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ شدید گرمی میں تبوک کے لیے روانہ ہوئے، راہ میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، وہاں ہم سب نے ایسی سخت پیاس محسوس کی کہ ایسا لگا جیسے ہماری گردنیں اب ٹوٹ جائیں گی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی آپ کو دعا کی قبولیت سے سرفراز کیا ہے، آپ ہمارے لیے دعا کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم ایسا ابھی چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھا دیے، اور دعا کرتے رہے یہاں تک کہ آسمان بادلوں سے بھر گیا، اور خوب برسا۔ لوگوں نے اپنے برتن بھر لیے۔ پھر جو نظر اٹھا کر دیکھا تو وہاں سے بادل آگے بڑھ چکا تھا۔ [2]
ابن اللُّصَیت منافق:
تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں پڑاؤ ڈالا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کھو گئی۔ ابن اللُّصَیت جو ایک منافق تھا کہنے لگا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے، اور آسمان کی خبریں لوگوں کو سناتا ہے۔ اور اسے پتہ نہیں کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں فرمایا: ایک آدمی ایسی بات کرتا ہے۔ اللہ کی قسم! میں صرف وہی کچھ جانتا ہوں جس کی خبر اللہ تعالیٰ مجھے دیتے ہیں۔ اور ابھی ابھی اللہ نے مجھے بتا دیا ہے کہ وہ اونٹنی فلاں گھاٹی کی وادی میں ہے، ایک درخت سے اس کی لگام الجھ گئی ہے، تم لوگ جاکر اسے میرے پاس لے آؤ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم گئے اور وہاں سے اونٹنی کو ہانک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ [3]
منافقین کا گھناؤنا کردار:
تبوک جاتے ہوئے ودیعہ بن ثابت، جُلاّس بن سُوید بن صامت، مَخشِی بن حُمَیّر اور ثعلبہ بن حاطب آپس میں رومیوں کی
|