Maktaba Wahhabi

681 - 704
اللہ کی قسم! ایسا لگتا تھا کہ لوگ پہلے سے جانتے ہی نہیں تھے کہ اللہ نے یہ آیت قرآن میں پہلے نازل کی ہوئی ہے، جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو تمام لوگوں نے اُن سے اس آیت کو حاصل کیا، اور جسے دیکھئے اس کی تلاوت کر رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں: مجھے سعید بن مسیّب نے بتایا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جوںہی میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس کی تلاوت کرتے سنا، دھڑام سے بیٹھ گیا، میرے دونوں پاؤں کی طاقت سلب ہوگئی اور مجھے علم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں۔ [1] تجہیز وتکفین: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: جب صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینا چاہا تو آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے اتار دیں جیسا کہ ہم اپنے مُردوں کے کپڑے اتار دیتے ہیں، یا آپؐ کے کپڑوں کے ساتھ ہی آپ کو غسل دیں۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے اُن پر نیند غالب کر دی اور ہر ایک کی ٹھوڑی اس کے سینہ پر پہنچ گئی۔اُس وقت گھر کے ایک کونے سے ایک بولنے والے کی آواز آئی جسے اُن لوگوں نے نہیں پہچاناکہ ’’ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے کپڑوں کے ساتھ نہلاؤ، چنانچہ صحابہ نے آپ کو آپ کی قمیص کے ساتھ نہلایا‘‘، صحابہ آپؐ پر پانی قمیص کے اوپر سے ڈالتے تھے اور قمیص کے ذریعے ہی آپؐ کے بدن کو رگڑتے تھے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: اگر ہمیں وہ بات پہلے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیتیں۔ [2] بیہقی رحمہ اللہ نے دلائل النبوۃ میں روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین بار سِدر(بیری) سے نہلایا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قمیص کے اوپر سے نہلایا گیا، اور قباء کے ’’ غرس ‘‘ نامی کنویں کے پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہلایا گیا، جو کنواں سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ کا تھا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کا پانی پیا کرتے تھے۔ [3] علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الجنائز میں امام شعبی رحمہما اللہ کی ایک مُرسل روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ شریک تھے۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے سندِ صحیح سے روایت کیا ہے۔ [4] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منگل کے دن نہلایا گیا، یعنی وفات کے ایک دن کے بعد۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ صحابہ کرام سوموار کے دن باقی وقت اور منگل کے دن کچھ وقت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت میں مشغول رہے۔ جب بیعت کا کام تمام ہوگیا، تمام امور طے پا گئے اور حالات میں پورے طور پر استقرار آگیا تب صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین میں لگے۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں: جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت ہوگئی تب لوگ منگل کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔ [5]
Flag Counter