یہ دوسری ہجرت پہلی سے مشکل تر تھی، اس لیے کہ قریش چوکنا ہوگئے تھے اور مسلمانوں کے اس فیصلے کو ناکام بنانے کی ٹھان لی، لیکن مسلمان مشرکینِ اہلِ قریش کی سازش پر عمل درآمد ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکل گئے۔اس بار مہاجرین کی تعداد بچوں کے علاوہ اسی(80) سے کچھ اوپر تھی اور کہا جاتا ہے کہ ان میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے، اس بارے میں راوی کو شک ہے ، اور اٹھارہ عورتیں تھیں، یہ سب نجاشی کے پاس بہت ہی سکون واطمینان کے ساتھ رہنے لگے۔ [1]
بطلانِ قصۂ غرانیق :
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی دوسری بار ہجرتِ حبشہ سے متعلق مزید لکھنے سے پہلے اُس جھوٹی خبر کے پھیلنے کے سبب کو جاننا چاہئے جو پہلی بار ان صحابہ کے مکہ لوٹنے کا داعیہ بنا۔ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی سال ماہِ رمضان میں خانۂ کعبہ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہاں بڑے بڑے زعمائے قریش اور کچھ مسلمان موجود ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان کھڑے ہوکر سورۃ النجم کی تلاوت کرنے لگے، اور بالخصوص اس سورہ کی آخری آیتیں جو دلوں کو دہلا دینے والی ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخصوص انداز ِ نبوی میں تلاوت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل کلام تک پہنچے :
((وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَىٰ (53) فَغَشَّاهَا مَا غَشَّىٰ (54) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكَ تَتَمَارَىٰ (55) هَٰذَا نَذِيرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْأُولَىٰ (56) أَزِفَتِ الْآزِفَةُ (57) لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ كَاشِفَةٌ (58) أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ (59) وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ (60) وَأَنتُمْ سَامِدُونَ)) [النجم:53-61]
’’اور اُس نے (قومِ لوط کی ) الٹی ہوئی بستیوں کو زمین پر دے مارا، پھر اُن بستیوں کو اُس (پتھروں یا پانی) نے ڈھانک لیا جس نے انہیں ڈھانک لیا، پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں میں شک کروگے، یہ (نبی یا قرآن) پہلے ڈرانے والے (انبیاء یا صحائف) کی طرح ایک ڈرانے والا ہے، آنے والی گھڑی (قیامت) قریب آچکی ہے، اُسے اللہ کے سوا کوئی ظاہر کرنے والا نہیں ہے، کیا تم لوگ اس قرآن کو سن کر تعجب کرتے ہو، اور ہنستے ہواورروتے نہیں ہو،اور غفلت میں مبتلا ہنس کھیل رہے ہو۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ دیگر مسلمان سجدے میں چلے گئے اور اس آوازِ حق نے متکبرین اور مذاق اُڑانے والے مشرکینِ قریش کے دل کو اس طرح ہلادیا کہ وہ بھی غیر شعوری طور پہ مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گرگئے۔
لیکن جب انہیں بعد میں احساس ہوا کہ ایمان باللہ کی عظمت وجلالت نے ان کی نکیل پکڑکر ان کی گردن کو جھُکا دیا ہے تو اپنے کیے پر اظہارِ ندامت کرنے لگے اور جھوٹی معذرت پیش کرنے لگے کہ انہوں نے محمدؐ کے ساتھ اس لیے سجدہ کیاہے کہ اس نے دورانِ قراء ت ان کے بتوں کا ذکر کیا اور کہا: ((تِلْکَ الْغَرانیق العُلی واَنَّ شَفَاعَتُہُنَّ لتُرتَجٰی۔))
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے دلوں میں پائے جانے والے اس رعب ودہشت کی وجہ سے اللہ کے لیے سجدے میں گرگئے تھے ، جو قرآنِ کریم کی عظمت وہیبت کی وجہ سے ان کے دلوں پر طاری ہوگئی تھی، لیکن بعد میں انہوں نے اپنی مذموم عادت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس جھوٹ کو منسوب کردیا۔
|