Maktaba Wahhabi

422 - 704
جہاد کے لیے نہ نکلو، تو اس بات نے ان مومنوں کا ایمان بڑھا دیا اور کہا: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، اور وہ بہتر کارساز ہے، بے شک شیطان اپنے اولیاء سے ڈراتا ہے، یعنی شیطان تمہیں اپنے اولیاء کا نام لے کر ڈراتا ہے اور تمہیں وہم میں مبتلا کرتا ہے کہ وہ بڑی طاقت والے ہیں، اس لیے اے مومنو! تم ان سے مت ڈرو، اور اگر مومن ہوتو مجھ سے ڈرو، یعنی اگر شیطان تمہارے لیے کسی جھوٹ کی ملمع سازی کرتا ہے، اور تمہیں کسی وہم میں مبتلا کرتا ہے تو تم لوگ مجھ پر توکل کرو، اورمیری جناب میں پناہ لو، بے شک میں تمہارے لیے کافی ہوں، اور میں تمہاری ان کے خلاف مدد کرنے والا ہوں۔ مختصر یہ کہ کفارِ قریش جنگ کے لیے میدانِ بدر میں نہیں آئے اور مسلمان وہاں آٹھ دن ان کا انتظار کرتے رہے، اور اس مدت میں وہاں تجارت کرتے رہے، اور جو مالِ تجارت اپنے ساتھ لائے تھے اسے بیچ کر ایک درہم کے بدلے دو درہم نفع حاصل کیا، اورسارے عربوں میں یہ بات پھیل گئی کہ مکہ کی فوج نے شکست قبول کرلی، اورجنگ کے لیے نہیں آئی، اور اسلام کا جھنڈا وہاں پورے آب وتاب کے ساتھ لہراتا رہا۔ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّ سلمہ رضی اللہ عنہما سے شادی: ماہِ شوال سن چار ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ سلمہ بنت ابو امیہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اپنے شوہر ابوسلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں، جو ان کی اولاد کے باپ تھے، اور اسی سال ماہ جمادی الاولیٰ کے آخری دنوں میں اس زخم سے متاثر ہوکر وفات پاگئے تھے جو انہیں غزوۂ احد میں لگاتھا، اس سے بظاہر شفایاب ہوگئے تھے، لیکن سریّہ بنی اسد کی قیادت سے واپسی کے بعد وہ زخم دوبارہ تازہ ہوگیا، اور مرض بڑھتا گیا، یہاں تک کہ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ امّ سلمہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں: جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی تو میں نے انا للہ واناإلیہ راجعون پڑھا اور دعا کی کہ اے اللہ ! میری مصیبت کو برداشت کرنے کی مجھے قوت عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما، پھر میں نے اپنے آپ سے کہا: مجھے ابو سلمہ سے بہتر کہاں مل سکتا ہے؟ جب میری عدت پوری ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ملنے کی اجازت مانگی، اس وقت میں ایک چمڑے کی اصلاح کررہی تھی، میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے قرظ کے پتے کے اثر کو دھویا، انہیں اجازت دی، اور میں نے چمڑے کا بنا ایک تکیہ جس میں پتے بھرے ہوئے تھے، ان کے لیے رکھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور وہاں بیٹھ گئے اور مجھے شادی کا پیغام دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری ہوئی تومیں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے شادی کرنے کے لیے کیسے راغب نہیں ہوسکتی ہوں، لیکن میرے اندر شدید غیرت پائی جاتی ہے، اور میں ڈرتی ہوںکہ مجھ سے آپ کے سلسلے میں کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجائے جس کے سبب اللہ مجھے عذاب دے، نیز میں اب ایک بڑی عمر کی عورت ہوگئی اورمیرے پاس بچے بھی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاں تک تمہاری شدید غیرت کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تم سے دور کردے گا، اور کبر سنی کی جو بات تم نے کی ہے تو میں بھی تمہاری طرح اب بڑی عمر کا ہوگیا ہوں، اور اپنے بچوں کے بارے میں جو بات تم نے کہی ہے تو شادی کے بعد تمہارے بچے میرے بچے ہوں گے۔ امّ سلمہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے پھر اپنا معاملہ
Flag Counter