Maktaba Wahhabi

574 - 704
عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی آمد: عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر شروع کرنے سے پہلے ہی ہجرت کی نیت سے مکہ سے نکل چکے تھے، اسی لیے مقامِ جُحفہ پر آپ سے اُن کی ملاقات ہوگئی۔ ابو سفیان بن الحارث اور عبداللہ بن ابی امیّہ کا اسلام: مکہ پہنچنے سے پہلے راستہ میں آپؐ سے آپ کے چچا زاد ابو سفیان بن الحارث اور عبداللہ بن ابی امیہ مقامِ ابواء پر آملے، یہ دونوں آپ کے چچا زاد اور پھوپھی زاد تھے۔ آپؐ نے دونوں کی طرف سے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا، اُس اذیت واستہزاء کو یاد کرکے جو آپ کو یہ دونوں مکی زندگی میں پہنچاتے تھے۔ آپؐ سے اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہ نے دونوں کے لیے بات کی اور کہا: اے اللہ کے رسول! دونوں آپ کے چچا زاد اور پھوپھی زاد ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اِن کی ضرورت نہیں۔ میرا چچا زاد میری بے عزّتی کرتا تھا، اور میرے پھوپھی زاد نے مکہ میں مجھے بڑی تلخ بات کہی۔ دونوں کو یہ بات معلوم ہوئی، اُس وقت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اُن کا ایک لڑکا بھی تھا تو ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ مجھے ملنے کی اجازت نہیں دیں گے، تو میں اپنے اس بیٹے کے ساتھ کہیں نکل جاؤں گا، یہاں تک کہ ہم دونوں پیاس اور بھوک کی شدت سے مر جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو متأثر ہوئے بغیر نہ رہے اور اُسی وقت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اُن کے سامنے سے آؤ، اور وہی بات کہو جو یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام سے کہی تھی: ((قَالُوا تَاللَّـهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّـهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ)) [یوسف:91] ’’ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم پر فوقیت دی، اور ہم لوگ بے شک گناہ گار تھے۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی اُن سے بہتر بات کہے۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: ((لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ)) [یوسف:92] ’’ آج تمہارا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، اللہ تمہیں معاف کردے، وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اس کے بعد ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چند اَشعار سنائے جن میں انہوں نے اپنی خطاؤں کا اعتراف کیا، اپنے اسلام کا اعلان کیا، اور اپنی پریشانی اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے کا اظہار کیا۔ اُن اشعار کو سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے سینہ پر ایک ٹھوکر لگائی، اور فرمایا: تم نے مجھے دَر دَر کی ٹھوکر کھلائی ہے۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ اس کے بعد صدق دل سے مسلمان ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرمندگی کے سبب کبھی آپؐ کے سامنے اپنا سر نہیں اٹھایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے محبت کرتے تھے، اور اُن کے لیے جنت کی گواہی دی، اور فرمایا: مجھے امید ہے کہ یہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی جگہ لے گا۔ اور جب ان کی وفات کا وقت آیا تو کہنے لگے: میری موت پر تم لوگ آنسو نہ بہاؤ۔ اللہ کی قسم! جب سے مسلمان ہوا ہوں زبان سے کوئی غلط بات نہیں کہی ہے۔ [1]
Flag Counter