رہے تھے۔[1]
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیٹی کو گود میں رکھا تھا جبکہ اس کی روح نکل رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اسے گود میں لیا پھر اپنے سامنے رکھ دیا، وہ بچی آپؐ کے سامنے وفات پاگئی، اور اُمّ اَیمن رضی اللہ عنہ چیخنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رو رہی ہو؟اُمّ ایمن رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا میں نے آپؐ کو روتے نہیں دیکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں روتا نہیں ہوں، وہ تو رحمت کے آنسو ہوتے ہیں۔ صحیحین کی ایک روایت میں ہے: جسے اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال دیا ہے، بے شک اللہ اپنے بندوں میں سے رحم کرنے والوں پر رحم کرتا ہے۔ [2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر جس پر آپ سوتے تھے چمڑے کا بنا تھا جس میں پتیاں بھری ہوئی تھیں۔ [3]
انہی صفاتِ عالیہ، فضائل کثیرہ، محاسنِ جمیلہ اور پاکیزہ صفات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیارا اور تمام مومنینِ عالم کا محبوب بنا دیا تھا۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس عظیم ذات کو اللہ تعالیٰ نے اِن محاسنِ جمیلہ سے متصف کیا اُن سے محبت کرنا ہمارا دینی فرض ہے۔ اسی لیے توصحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان ومال، اولاد اور باپ ماں سے زیادہ محبت کی، اور اس محبت کا ثبوت تمام شعبۂ حیات میں کامل اتباع کے ذریعہ دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ اور شمائلِ حسنہ کے ذکر کا یہی مقصودِ اصلی ہے کہ ہم انہیں اپنے دل ودماغ میں بسا لیں، اپنی رگِ جان کے قریب ثبت کر لیں، اور اپنی پوری زندگی کو اسی رنگ میں رنگ لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطر بیز سیرت کو اپنے لیے نمونہ بنا لیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کی روشنی سے اپنی زندگی کے تمام گوشوں کو منور کر لیں۔ اس لیے کہ امتِ مسلمہ کی ہر بھلائی صرف اسی میں ہے کہ ہم صرف کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں، اور زید وبکر کے خود ساختہ دین وشریعت اور افکار وآراء کو یکسر ردّ کر دیں۔ آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اُن کاموں کی توفیق دے جن کو وہ پسند کرتا ہے، اور ان افکار واعمال اور خرافات وواہیات سے بچالے جنہیں وہ مبغوض جانتا ہے۔ وباللہ التوفیق۔
****
|