آفتابِ عالم تاب جبلِ فاران سے طلوع ہوتاہے
تنہائی اور عُزلت پسندی:
جن روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت پسندی، عبادت وریاضت، غیبی آوازوں کے سننے، اور خوابوں کے دیکھنے کا ذکر آیا ہے جن کی تعبیریں صبحِ صادق کی مانند آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عیاں ہوجاتی تھیں، ایسی روایتوں کا بنظرغائر مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس سال کی عمر سے پہلے ہی تنہائی پسند ہوگئے تھے۔ اُن دنوں آپ چند سکّوں کے عوض اہلِ مکہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے، آسمانوں اور زمین اور اُن کے درمیان پائی جانے والی مخلوقات میں غور کرتے رہتے تھے، اور بُتوں سے تو آپ بچپن ہی سے غایت درجہ نفرت کرتے تھے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب پچیس سال کے ہوئے تو تجارت کے لیے ملکِ شام کا سفر کیا … واپس آنے کے بعد سیّدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا سے شادی کرلی، اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل میں خلوت میں اپنے رب کی عبادت کرنے کی رغبت پیدا کردی۔ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بُتوں کی ایسی نفرت بٹھا دی کہ دنیا میں کوئی چیز آپ کی نظرمیں اپنے آباء واجداد کے دینِ باطل اور بُت پرستی سے زیادہ مبغوض نہیں تھی۔
میں نے گزشتہ صفحات میں ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بُتوں سے بُغض و عداوت‘‘ کے عنوان کے تحت جو کچھ لکھا ہے ، اسے دوبارہ پڑھیے تاکہ آپ کو یاد آجائے کہ آپ بچپن سے ہی بُتوں سے نفرت کرتے تھے۔ اور ایک بار جب اپنے چچا ابو طالب اور اپنی پھوپھیوں کے اصرار پر ایک بُت کو چھونا چاہا تو ایک سفید طویل القامت آدمی آپ کے آگے آگیا، اور چیخ پڑا، اے محمد! پیچھے ہٹ جائیے، بُت کو ہاتھ نہ لگائیے۔
اور جیسے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بڑھتی گئی، آپ کی خلوت نشینی، آسمانوں اور زمین میں پائی جانے والی کائنات میں غور وفکر، اور عام حالات میں لوگوں سے اُن کی بُت پرستی اور بُتوں کے سامنے اُن کی سجدہ ریزی کے سبب بتوں سے نفرت بڑھتی گئی۔
روشنی دیکھتے اور اپنے متعلق آوازیں سنتے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب اڑتیس سال کے قریب ہوئی تو بسا اوقات ایک روشنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے کوند جاتی ، اور اپنے متعلق آوازیں سنتے ، لیکن کسی آدمی کو نہیں دیکھتے۔ اتحاف الوریٰ کے مؤلف لکھتے ہیں کہ ’’اڑتیس سال کی عمر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قسم کی روشنی اور نور دیکھنے لگے، اور آوازیں سننے لگے۔ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً تین سال تک آواز سنتے رہے، لیکن نہیں سمجھتے تھے کہ یہ آواز کیسی ہے؟ اور شاید شجر وحجر اُنہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم میں مروی ہے، اور ایک روشنی دیکھتے تھے۔ [1]
|