Maktaba Wahhabi

143 - 704
سے جلد از جلد فارغ ہوکر آپ کو لے کرخود مکہ واپس آگئے۔ [1] فجارکی لڑائی: یہ لڑائی قریش وکنانہ اور قیس عیلان کے درمیان ہوئی تھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پندرہ سے انیس سال کے درمیان تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ قیس والوں نے حرم اور حرمت والے مہینوں کی بے حرمتی کی تھی، اسی لیے اس کا نام فجار کی لڑائی پڑگیا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بنی ضمرہ بن بکر بن عبدمناف بن کنانہ کے براض بن قیس نامی ایک آدمی نے قبیلۂ ہوازن کے عروہ الرّحال نامی ایک آدمی کو حرمت کے مہینے میں بازارِ عُکاظ میں قتل کردیا۔ ایک آدمی نے آکر قریش کو اس کی خبر دی، اور کہا کہ براض نے عروہ کو حرمت کے مہینے میں عُکاظ میں قتل کردیا ہے۔ یہ سن کر قریش والے ان لوگوں سے جنگ کے لیے چل پڑے۔ جب ہوازن کو اس کی خبر ہوئی تو ان کے پیچھے وہ بھی چل پڑے، اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو حرم میں داخل ہونے سے پہلے پالیا، اور رات گئے تک لڑتے رہے۔ پھر اہلِ قریش حرم میں داخل ہوگئے، تو ہوازن ان کا پیچھا کرنے سے رُک گئے ۔ اس کے بعدبھی کئی دن تک ان میں لڑائی ہوتی رہی۔ اس لڑائی میں کنانہ اور قریش کا قائد حرب بن امیہ بن عبدشمس تھا۔ پہلے دن میدانِ جنگ ہوازن کے ہاتھوں میں رہا، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ اس لڑائی میں شریک ہوئے تو جنگ کانقشہ بدل گیا، اور قریش والے غالب آگئے ۔ اس جنگ کی کہانی طویل ہے، جسے ابن ہشام نے اپنی کتاب السیرۃمیں بیان کیا ہے ، جس کے ذکر کرنے کی یہاں چنداں ضرورت نہیں۔ اس واقعہ کو یہاں ذکر کرنے کا مقصدیہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جنگ میں کئی دن شریک ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے چچا حضرات اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنگ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاہے: میں اپنے چچا حضرات کو کمان میں تیر بھر کر دیا کرتا تھا۔ قریش اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ جنگ اس اعتبار سے اہم تھی کہ اس کا مقصد سرزمینِ حرم اور حرمت کے مہینوں کے احترام کا دفاع کرنا تھا، تاکہ مکہ، اس کی سرزمین اور اس کا حرم ہمیشہ کی طرح امن وسلامتی اور راحت وسکون کا ہر اس شخص کے لیے گہوارہ رہے ، جو یہاں بیت اللہ کے طواف اور مناسک ِحج کی ادائیگی کے لیے آئے۔ [2] حِلْفُ الفُضول (عہد نامۂ کارہائے خیر): یہ عہد نامہ جنگِ فجار کے بعد ذی القعدہ کے مہینہ میں ہوا تھا ، اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تقریبًا بیس سال تھی۔ سب سے پہلے جس نے لوگوں کو اس کی دعوت دی وہ زبیر بن عبدالمطلب تھے ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یمن کے قبیلہ زبید کا ایک آدمی کچھ سامانِ تجارت لے کر مکہ آیا ،جسے عاص بن وائل نے اس سے خریدا ،اور اس کی قیمت دینے سے انکار کردیا۔ زبیدی نے مکہ میں موجود اپنے حلیفوں سے کہا کہ وہ لوگ اس کا حق دلائیں، لیکن کسی نے اس کی مدد نہیں کی، تو وہ شخص جبل ابی قبیس پر
Flag Counter