Maktaba Wahhabi

277 - 704
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے، رات میں چلتے تھے اور دن میں چھپ جاتے تھے، یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گئے ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قباء میں جالیا۔ [1] ابو قحافہ ، ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اولاد کی دیکھ بھال کرتے رہے: سیّدہ اسماء رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ مکہ سے نکلے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سارا مال ساتھ لے لیا تھا، ان کے پاس پانچ یا چھ ہزار درہم تھے ، ان کی روانگی کے بعد میرے دادا ابو قحافہ ہمارے پاس آئے، اس وقت ان کی بینائی جا چکی تھی، انہوں نے پوچھا: میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے والد اپنی جان کے ساتھ اپنا مال بھی لے کر چلے گئے ، اور تم سب کو پریشانی میں ڈال دیا؟ میں نے کہا: دادا ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے ۔ وہ تو ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑ کر گئے ہیں ، پھر میں نے کئی پتھر لیے اور انہیں گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا جہاں میرے والد اپنا مال رکھا کرتے تھے، پھر اس پر ایک کپڑا ڈال دیا، پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے گئی اور کہا: دادا آپ اپنا ہاتھ اس مال پر رکھئے، انہوں نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا تو کہنے لگے : پھر کوئی حرج نہیں، اگر وہ تمہارے لیے اتنا کچھ چھوڑ کر گیا ہے تو بہت اچھا کیا ہے، اس سے تم لوگ اپنا گزر اوقات کروگے۔ اسماء رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: حالانکہ اللہ کی قسم! والد نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا ، میں نے تو اس طرح اپنے دادا کو اطمینان دلانا چاہا تھا۔ سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو چھُپانا: سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے ابوبکر رضی اللہ عنہ سوار تھے ، راستہ میں لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پہچان لیتے تھے، اس لیے کہ وہ بارہا اپنے تجارتی کاموں کے لیے شام جاتے رہے تھے، اوران لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوتا تھا ، لوگ ان سے پوچھتے: اے ابو بکر ! آپ کے آگے کون ہے؟ وہ کہتے : ایک راستہ دکھلانے والا ہے ، جب مدینہ کے قریب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ اور ابو امامہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو خبر بھیجی، وہ سب نکل کر آپ دونوں کے پاس آئے اور کہا: آپ امن وسلامتی کے ساتھ ، اور بحیثیت ہمارے سردار اور فرمانروا داخل ہو جائیے، چنانچہ دونوں مدینہ میں داخل ہوگئے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے آج تک کوئی دن اُس دن سے زیادہ پررونق اور پربہار نہیں دیکھا، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ مدینہ میں داخل ہوئے، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا منظر بھی دیکھا، تو کوئی دن اُس دن سے زیادہ تاریک اور بدشکل نہیں دیکھا، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ میں استقبال: محمد بن اسحاق نے بعض انصاری صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکلنے کی خبر ملی اور آپ کی آمد کی امید ہوگئی تو ہم لوگ ہر روز صبح کی نماز پڑھنے کے بعد حرہ کے علاقے میں نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے
Flag Counter