15: اگراس صحیفہ والوں کے درمیان کوئی نئی بات پیدا ہوجائے یا کوئی اختلاف رونما ہوجس سے شرانگیزی کا ڈر ہو تو ایسا معاملہ اللہ اور محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے حوالے ہوگا، اور فیصلہ ہمیشہ اس صحیفہ میں موجود اچھی باتوں کے مطابق ہوگا۔
16: قریش کو پناہ نہیں دی جائے گی، اور نہ کسی ایسے آدمی کو جو اُن کی مدد کرے گا۔
17: یثرب پر حملہ ہونے کی صورت میں یہاں کے رہنے والے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
18: اگر انہیں کسی صلح کی دعوت دی جائے گی تو اسے قبول کریں گے، اور عمل میں لائیں گے، اور جب کسی ایسی صلح کی طرف انہیں دعوت دی جائے گی تو وہ تمام مسلمانوں پر نافذالعمل ہوگی، سوائے اس کے جو اللہ کے دین کی مخالفت میں جنگ کرے گا تو اس سے صلح نہیں کی جائے گی۔
19: ہر جماعت پر اس کی اور اس کی طرف رہنے والے لوگوں کی مالی ذمہ داری ہوگی۔
20: قبیلۂ اوس کے یہودی ان کے دوست سمجھے جائیں گے اور ان پر وہ تمام ذمہ داریاں ہوں گی جو اس عہد نامے والوں پر ہوں گی، اگر کوئی گناہ یا جرم کا ارتکاب کرے گا تو اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس عہد نامہ کی تمام اچھی اور سچی باتوں کی تائید میں ہے۔
21: یہ عہد نامہ کسی ظالم یا گناہگار کو نہیں بچاسکے گا، اور جو کوئی یہاں سے نکلے گا وہ مامون ہوگا اور جو یہاں رہے گاوہ بھی مامون ہوگا، سوائے اس کے جو ظلم اور گناہ کرے گا، اور بے شک اللہ اس کے ساتھ ہوگا جو بھلائی اور تقویٰ کی راہ اختیار کرے گا، اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ [1]
مقیم کی نماز میں زیادتی:
ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابن جریر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسی سال یعنی سن ایک ہجری میں مقیم کی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ ہوگیا، جیسا کہ کہا جاتا ہے، اس لیے کہ پہلے سے مقیم اور مسافر کی نماز دو رکعت تھی۔ اور ایسا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے ایک ماہ بعد ہوا۔ اس بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہماسے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں: ابتدا میں صرف دو رکعت نماز فرض کی گئی، پھر مسافر کی نماز ایسی ہی باقی رہی، اور مقیم کی نماز میں اضافہ کردیا گیا۔ [2]
اذان کی مشروعیت کا واقعہ:
اسی سال کے واقعات میں سے اذان کی مشروعیت بھی ہے، اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ صحابہ کرام پہلے وقت کی خبر ہوئے بغیر نماز کے لیے آتے تھے، اور نماز پڑھ کر واپس چلے جاتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نمازوں کے اوقات کی اطلاع دینے کے لیے کسی مناسب وسیلہ کے بارے میں سوچنا شروع کیا، اور صحابہ کرام سے مشورہ کیا، تو اُن میں سے بعض نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نرسنگا بجانے کا مشورہ دیا، لیکن آپؐ نے اسے ناپسند کیا، اس لیے کہ اسے یہود استعمال کرتے ہیں، پھر انہوں
|