جو آپ کسی طرح نہ ہو سکا تو جواب نہ لکھنے کی چند وجہیں آپ نے تراش کر شائع کیں۔ مگر ماشاء اللہ وہ وجہیں کچھ ایسی معقول اتریں کہ انھیں سے سلوگ خوب اچھی طرح سمجھ گئے کہ ؎ زاہد نہ داشت تاب جمال پری رخان کنجے گرفت وترس خدارا بہانہ ساخت پھر جب آپ کے ان وجوہ کی تردید میں تنویر الابصار نہایت آب وتاب کے ساتھ شائع ہوا۔ اور ادھر کلکتہ سے اسٹھارواجب الاظھار طبع ہو کر پران ہوا۔ اور اسی اثنا میں آپ نے غلطی کا اعلان بھی شائع کر دیا۔ پس ان تینوں پر جون سے آپ کی جن جن باتوں کی قلعی کھلی ہے اور جس قدر نیک نامی آپ نے حاصل کی ہے اس کو نہ پوچھو،اب آپ نے یہ خیال کیا کہ اگر تنویر الابصار کو جواب نہ شائع ہوا تو اور بہت بڑی نیک نامی ہوا چاہتی ہے۔ لہٰذا دو چار مہمل اعتراض کر کے اس کا نام تبصرۃ النظاء فی تنویر الابصار لکھ کر شائع کیا ہے تاظاہر ہو کہ مولانا شوق نے تنویر الابصار کا جواب لکھا۔ قال: ہر گز آپ نے یوں نہیں لکھا ہے ،بلکہ اربع وعشرون لیلۃ لکھا ہے اور مکر ر اسی طرح لکھا ہے اب دیکھئے کہ اولاآپ نے یہ غلطی کی کہ اس روایت کے بعض الفاظ غلط طور پر نقل کئے ۔ ثانیا اب کس دلیری سے آپ لکھتے ہیں کہ میں نے اربعا وعشرین لکھا ہے جو بالکل غلط ہے۔ الخ اقول: آپ کا یہ اعتراض مضحکہ طفلان ہے۔ آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اپنے علم وافضل اور متانت کی اپنے ہاتھوں قلعی کھولی ہے۔ حضرت !اربع وعشرون لیلۃ اور اربعا وعشرین لیلۃ میں کچھ فرق نہیں ہے۔ ان دونوں لفظوں کے معنی چوبیس رات کے ہیں۔ ہاں جوان دونوں لفظوں میں ایک اعرابی فرق ہے ۔ اس کا اعتبار ترکیب عربی میں ضروری ہے نہ زبان اردو میں آپ کے اس اعتراض کا اہمال ذیل کی مثال سے بہت اچھی طرح ظاہر ہو سکتا ہے۔ زید نے دعویٰ کیا کہ نماز میں آمین آہستہ ہی کہنا چاہیے ،کیونکہ امام طحاوی |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |