Maktaba Wahhabi

141 - 704
ابو طالب کی کفالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے پاس پلتے بڑھتے جوان ہوگئے، اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرتا رہا، اور ابوطالب نے اپنے بھتیجے کا حق پورے طور پر ادا کیا۔ انہوں نے آپ کو اپنی اولاد کے ساتھ ملا لیا،اور آپ کو ان سب پر فوقیت دینے لگے۔ جب آپ آٹھ سال کے تھے اس وقت سے نبوت کے دسویں سال تک پورے تینتالیس(43) سال انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا خیال رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا، ہر طرح سے آپ کی راحت وآرام کا خیال کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ نبوت کے مطابق آپ کی عزت کی۔ جاہلیت کی آلائشوں اور بتوں کی پرستش سے حفاظت: اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، نبوت عطا ہونے کے پہلے ہی سے جاہلیت کی گندگیوں اور بُرے اخلاق سے حفاظت کی جو شرفاء کے شایانِ شان نہیں تھے۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قریش کے دیگر لڑکوں کے ساتھ پتھر اُٹھاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا رہا تھا، تمام بچوں نے ننگے ہوکر اپنی ازار اپنی گردن پر ڈال لی تھی ، تاکہ اس پر پتھر ڈھوسکیں۔میں ان کے ساتھ آجا رہا تھا کہ اچانک کسی نے مجھے ایک تکلیف دہ گھونسا مارا اور کہا :اپنی ازار پہن لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں نے ازار پہن لی، اور اپنی گردن پر پتھر ڈھونے لگا،میں اپنے ساتھیوں میں تنہا ازار پہنے ہوا تھا۔ امام بخاری وامام مسلم نے عبدالرزاق کی سند سے سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب کعبہ کی تعمیر کی گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پتھر ڈھونے کے لیے گئے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: پتھر ڈھونے کے لیے اپنی ازار اپنے کندھے پر ڈال لو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو فوراً ہی زمین پر گر پڑے، اور آپ کی دونوں آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھ گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور کہا:مجھے میری ازار دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اپنی ازار پہن لی۔[1] امام بیہقی رحمہ اللہ نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ تانبے کا بنا ہوا ایک بُت تھا، جس کا نام اِساف ونائلہ تھا۔مشرکین حالتِ طواف میں اس پر ہاتھ پھیرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا، اور میں نے بھی ان کے ساتھ طواف کیا ، جب میں اس بُت کے پاس سے گزرا تو اس پر اپنا ہاتھ پھیرا،آپ نے فرمایا: اِسے مت ہاتھ لگاؤ۔ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے دل میں سوچا، میں اِسے ضرور ہاتھ لگاؤں گا، تاکہ دیکھوں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے اسے دوبارہ ہاتھ لگایا، تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں روکا نہیں گیا تھا؟ بیہقی کی ایک دوسری روایت میں ہے : زید رضی اللہ عنہ نے کہا: اُس اللہ کی قسم جس نے آپ کو عزت بخشی اور آپ پر کتاب نازل کی ! آپ نے کبھی بھی کسی بُت پر ہاتھ نہیں پھیرا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا، اور اپنی کتاب نازل کی۔ [2]
Flag Counter