غزوۂ بنی قریظہ
جبریل علیہ السلام بنو قریظہ کے خلاف جنگ میں:
ہم نے یہ بات جان لی ہے کہ غزوۂ خندق کی ابتدا شوال سن 5 ہجری میں ہوئی تھی اور کافروں کا محاصرہ ابتدائے ذی القعدہ میں ختم ہوا تھا، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے لوٹ کر مدینہ آئے، تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے گھر داخل ہوکر، اپنا سردھویا اور غسل کیا پھر ظہر کی نماز پڑھی، اُسی وقت جبریل علیہ السلام ایک خچر پر سوار ہوکر آئے جس پر چمڑے کی زین اور اس پر ایک چادر پڑی تھی، جس کے کناروں پر غبار چمک رہا تھا۔ جبریل علیہ السلام نے جنازہ پڑھنے کی جگہ پر کھڑے ہوکر آواز لگائی، اے جہاد کرنے والے ! لائیے اس آدمی کو جو آپ کو معذور سمجھتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر باہر نکلے تو جبریل علیہ السلام نے کہا: کیا میں آپ کو دیکھ نہیں رہا ہوں کہ آپ نے جنگ کا لباس اُتار دیا ہے، حالانکہ فرشتوں نے ابھی نہیں اُتار اہے، ہم نے دشمنوں کو حمراء الأسد سے آگے بھگادیا ہے۔ اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ بنو قریظہ تک چل کر جائیے، میں بھی ان کے پاس جا رہا ہوں، اور ان کے قلعوں کو متزلزل کرنے والا ہوں۔
عَلَمِ اسلام سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلاکر ان کے ہاتھ میں اسلام کا علَم دیا، یہ وہی علَم تھا جو غزوۂ خندق کے لیے بلند کیا گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا تاکہ لوگوں میں اعلان کردیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیتے ہیں کہ وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں پڑھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زِرہ ، خود اور جنگی لباس پہن لیا، اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لے لیا اور ڈھال سنبھال کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوگئے۔ [1]
|