((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ)) [التوبہ: 23]
’’ اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے بجائے کفر کو پسند کرلیں تو انہیں اپنا دوست نہ بناؤ، اور تم میں سے جو لوگ انہیں اپنا دوست بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ ‘‘
خلاصہ یہ کہ مدینہ کی اسلامی سوسائٹی کی بنیاد سب کچھ سے قبل اسلامی عقیدہ پر تھی، اور اس سوسائٹی کے لوگ صرف اللہ، اُس کے رسول اور مؤمنوں سے محبت کرنا جانتے تھے۔ اور انصار ومہاجرین کے دلوں میں اسی راسخ عقیدہ سے ان کے آپس کی محبت واخوت اور اجتماعی تعاون وتکافل کے سوتے پھوٹے تھے، اور ایک دوسرے کے ساتھ یہی محبت وشفقت اور خوشگوار رشتۂ اخوت اس سوسائٹی میں رہنے والے تمام بڑے اور چھوٹے، مالدار وفقیر اور حاکم ومحکوم کے درمیان تعلق کی بنیاد تھا۔ نہ مالدار فقیر پر اپنی برتری کا اظہار کرتا تھا، نہ حاکم محکوم پر اور نہ قوی کمزور پر، اس لیے کہ مسلمان درحقیقت سب کے سب برابر ہیں، ویسے ہی جیسے کنگھی کے دندانے برابر ہوتے ہیں، کسی کو کسی پر اگر اللہ کے نزدیک برتری مل سکتی ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔
5۔ مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ:
چہار طرف سے مہاجرین کی مدینۃ الرسول میں آمد کا لازمی نتیجہ یہ ہونا تھا کہ مدنی سوسائٹی میں اجتماعی اور اقتصادی مشکلات رونما ہوتیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس لیے کہ اکثر مہاجرین جو مکہ سے نکل کر یہاں آئے تھے انہیں مشرکین قریش نے ان کا مال واسباب ساتھ لانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اور بہت سے تو مشرکوں کی نگاہ بچاکر مکہ سے خفیہ طور پر نکلے تھے، اس لیے وہ اپنے سامان و اسباب کے ساتھ نہیں نکلے تھے، اور جب مدینہ پہنچے تو ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی، نہ اُن کے پاس مال تھا اور نہ ہی سرچھپانے کی جگہ۔
اِن حالات کا تقاضاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے لیے ایسے لوگوں کو تلاش کرتے جو انہیں اپنے گھروں میں پناہ دیں، اور انہیں اپنے کھانے اور پانی میں شریک کریں، یہاں تک کہ اُن کے حالات کچھ درست ہوجائیں، اور ان کے گھبرائے دل کو وحشت وپریشانی کے بعد یک گونہ سکون مل جائے۔
مکہ میں مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ:
مکی دور میں دعوتِ اسلامیہ کے حالات پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل مکہ میں ہی محسوس کرلیا تھا کہ مسلمان خود اپنے شہر میں نہایت غربت واجنبیت کی زندگی گزار رہے ہیں، اور اس پریشانی کو کسی حد تک دور کرنا ازبس ضروری ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان اسلامی رشتہ اخوت کی طرح ڈالی، اور حمزہ اور زید بن حارثہ، ابوبکر وعمر، عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور عبداللہ بن مسعود، عبیدہ بن حارث اور بلال حبشی، مصعب بن عمیراور سعد بن ابی وقّاص، ابوعبیدہ بن جراح اور سالم (ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام) سعید بن زید بن عمرو بن نفیل اور طلحہ بن عبیداللہ، اورخود اپنے اور علی بن ابی طالب کے درمیان ایمان واسلام کی بنیاد پر اخوت قائم کی ( رضی اللہ عنھم اجمعین )۔ [1]
|