یہ سراقہ بن مالک ہے، تب ابلیس نے حارث کے سینے پر مُکّا مارا اور بھاگتا ہوا وہاں سے نکل گیا، یہاں تک کہ اپنے آپ کو سمندر میں ڈال دیا۔ [1]
ابن کثیر رحمہ اللہ نے دلائل البیہقی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جبریل علیہ السلام ابلیس کی طرف بڑھے، اور جب اس نے انہیں دیکھا تو اس کا ہاتھ ایک مشرک کے ہاتھ میں تھا، ابلیس نے اپنا ہاتھ فوراً چھڑایا اور پیچھے مُڑ کر وہ اور اس کے مددگار شیاطین بھاگ پڑے، مشرک نے کہا: اے سراقہ! کیا تم کہتے نہیں تھے کہ تم ہمارے ساتھ رہوگے؟ اس نے کہا: میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ہو، میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور اللہ کا عذاب سخت ہوتا ہے۔ اور یہ اس وقت ہوا جب اس نے فرشتوں کو دیکھا۔ [2]
اللہ کا دشمن ابوجہل:
اللہ کے دشمن ابوجہل کے حالات میں آتا ہے کہ جب میدانِ بدر میں دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں، اور لوگ ایک دوسرے سے قریب ہوئے تو اس نے کہا: اے اللہ ! اس نے رشتہ داریوں کو کاٹ دیا ہے او رایسا دین ہمارے سامنے لایا ہے جسے ہم نہیں جانتے، اس لیے تو آج کے دن اسے( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو)ہلاک کردے، پھر اسی نے جنگ کی ابتدا کی۔ اور کہا جاتا ہے کہ پہلے مجاہد جو اس کے سامنے آئے بنو سلمہ کے معاذ بن عمرو بن الجموح تھے، وہ کہتے ہیں: میں نے کافروں کو کہتے سنا( اور اس وقت ابو جہل کچھ کافر فوجیوں کے بیچ میں کھڑا تھا) کہ ابو الحکم کے قریب کوئی نہ آپائے۔ جب میں نے یہ بات سُنی تو اسے اپنا نشانہ بنالیا، اور اس کی طرف بڑھا اور جب میں بالکل قریب ہوگیا تو اس پر حملہ کردیا، اور ایک کاری ضرب کے ذریعہ اُس کی آدھی پنڈلی الگ کردی، اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر ضرب لگائی اور میرا ہاتھ صرف چمڑے سے لگا ہوا لٹکنے لگا، اور جنگ نے مجھے اس ہاتھ سے مشغول کردیا، پھر میں سارا دن جنگ کرتا رہا، اور اپنے ہاتھ اپنے پیچھے گھسیٹتا رہا، اور جب میری تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو اپنے پاؤں کے نیچے اسے دباکر کھینچ کر الگ کردیا۔ معاذ اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک زندہ رہے۔
اس کے بعد ابو جہل کے پاس سے (جبکہ اس کا پاؤں کٹ چکا تھا) معوذ بن عفراء گزرے، اور ایک ضرب لگا کر اسے ٹھنڈا کردیا، معوذ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔
پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابو جہل کے پاس سے گزرے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوجہل کو مقتولین کے درمیان تلاش کیا جائے تو انہوں نے اسے اس حال میں پایا کہ معاذ اور معوذرضی اللہ عنہماکی کاری ضربوں نے اسے ٹھنڈا کردیا تھا، لیکن ابھی تک اس کی سانس چل رہی تھی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے پہچان لیا، تو اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھ کر اس سے کہا: اے اللہ کے دشمن! آخر کار اللہ نے تمہیں رسوا کیا، ابو جہل نے کہا: کیا تم ایک ایسے آدمی کے اوپر پاؤں رکھ کر یہ بات کہہ رہے ہو جسے اس کی قوم نے قتل کردیاہے۔ مجھے بتاؤ، آج کو ن غالب رہا؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول، پھر میں نے اس کا سر الگ کیا، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا، اور کہا: یا رسول اللہ! یہ ہے اللہ کے دشمن
|