Maktaba Wahhabi

603 - 704
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انصار کو بلا بھیجا، سب کو چمڑے کے ایک خیمہ میں جمع کیا۔ جب جمع ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: مجھے تمہارے بارے میں کیا بات معلوم ہوئی ہے؟ تو فقہائے انصار نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے ہوشمند لوگوں نے کوئی بات نہیں کہی ہے۔ البتہ کچھ نوجوانوں نے کہا ہے: ’’اللہ اپنے رسول کو معاف کردے، قریش کو دیتے ہیں اور ہم کونظر انداز کرتے ہیں، حالانکہ ہماری تلواروں سے اب تک ان کا خون ٹپک رہا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کچھ نو مسلموں کو ان کے تالیف قلب کے لیے دیتا ہوں۔ کیا تم لوگ یہ پسند نہیں کرو گے کہ لوگ مال واَسباب لے کر جائیں، اور تم اپنے گھروں کو اللہ کے رسول کو لے کر جاؤ۔ اللہ کی قسم! تم جو لے کر جاؤ گے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو دوسرے لوگ لے کر جائیں گے۔ انصار نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ! ہمیں یہ منظور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دیکھوگے کہ لوگ اپنے آپ کو ناحق تم پر ترجیح دیں گے، تو صبر کرنا، یہاں تک کہ تمہاری ملاقات اللہ اور اس کے رسول سے ہو، میں حوض پر ملوں گا۔ انصار نے کہا: ہم صبر کریں گے۔ [1] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ غنائم اور لوگوں کا شمار کریں، جیسا کہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، پھر وہ غنائم لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ ہر آدمی کو چار اونٹ اور چالیس بکریاں ملیں، اور گھوڑ سوار کو بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں۔ [2] ایک منافق کی گستاخی: جیسا کہ معلوم ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتی مصلحت کے مطابق کچھ لوگوں کو تقسیمِ غنائم کے وقت ترجیح دی۔ اَقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ دیے، اور اتنا ہی عُیینہ بن حِصن کو۔ اسی طرح کچھ اَشرافِ عرب کو بھی زیادہ دیا۔ تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! اس تقسیم میں انصاف نہیں برتا گیا ہے،اور اللہ کی خوشنودی مقصود نہیں تھی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راویٔ حدیث کہتے ہیں: میں نے دل میں سوچا کہ اس بات کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور دوں گا۔ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدل گیا، اور فرمایا: اگر اللہ اور اس کے رسول انصاف نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، انہیں مجھ سے زیادہ تکلیف پہنچائی گئی تو انہوں نے صبر سے کام لیا۔ [3] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اُس دیہاتی کی بات سے بہت ناراض ہوئے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تاکہ اسے قتل کر دیں، لیکن آپؐ نے ان کو اجازت نہیں دی اور فرمایا: اللہ کی پناہ، لوگ کہیں گے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں۔ [4] تقسیمِ غنائم کے وقت دیہاتیوں کا سوءِ ادب: ایک دیہاتی جعرانہ میں رسول اللہؐ کے پاس آیا اور کہا: آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا کیا اس کو پورا نہیں کریں گے؟
Flag Counter