Maktaba Wahhabi

490 - 704
سے روک نہ دیں۔ اسی لیے آپؐ نے ماہ ذی القعدہ کو پسند کیا جو ماہِ حرام ہے، تاکہ قریش والے خوفزدہ نہ ہوں، اور بہانہ نہ بنائیں کہ محمدؐ ماہِ حلال میں قریشیوں سے جنگ کرنا چاہتا ہے، اوراس بہانے مسلمانوں کو بیت الحرام تک پہنچنے سے روک نہ دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خواب کی اطلاع اُس وقت دی جب آپؐ مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوگئے، اس سے مسلمانوں کو بہت زیادہ خوشی ہوئی اور انہیں یقین ہوگیا کہ وہ عنقریب طویل غیر حاضری کے بعد مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے، بیت اللہ کی زیارت کریں گے، عمرہ کریں گے اور اپنے محبوب وطن اور خویش واقارب کو دیکھیں گے۔ لیکن جب صلح نامہ کی شرط کے مطابق مکہ میں داخل ہوئے بغیر مدینہ واپس ہوگئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے خواب کی تعبیر پوچھی۔ منافقین کہنے لگے: یہ کیسا عمرہ ہے جس میں نہ ہم نے اپنے بال منڈائے یا کٹائے اور نہ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ اس وقت پوری سورۃ الفتح نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبر دی کہ اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا ہے، اور وہ عنقریب پوراہوگا، لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے، اور اللہ اس تاخیر کی مصلحت خوب جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((لَّقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا)) [الفتح: 27] ’’ اللہ نے اپنے رسول کا برحق خواب سچ کر دکھایا،اگر اللہ نے چاہا تو تم یقینا مسجد حرام میں داخل ہوگے، درآنحالیکہ تم امن میں ہوگے، اپنے سروں کے بال منڈائے یا کٹائے ہوگے، تم خوف زدہ نہیں ہوگے، پس اُسے وہ معلوم تھا جو تم نہیں جانتے تھے، چنانچہ اُس نے اِس سے پہلے تمہیں ایک قریب کی فتح عطا کی۔ ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلنے والوں کی تعداد: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے لبیک کہا، اور کچھ لوگوں نے اس بدگمانی کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر نہیں کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ قریش کی طرف سے ایسی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا اندازہ مسلمانوں کو نہیں ہے۔ انہی بدگمانوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح میں نازل فرمایا: ((سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿١١﴾ بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا)) [الفتح:11،1 2] ’’ آپ سے پیچھے رہ جانے والے دیہاتی کہیں گے کہ ہمارے مال ودولت اور ہمارے بال بچوں نے ہمیں مشغول کردیا، اس لیے آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا کردیجیے، وہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں ہے، آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کے مقابلے میں کون تمہارے لیے کسی چیز کا مالک ہے، اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے، یاتمہیں کوئی فائدہ پہنچانا چاہے، بلکہ اللہ تمہارے کاموں کی پوری خبر رکھتا ہے، بلکہ تم نے گمان کرلیا تھا کہ رسول اور مومنین اپنے اہل وعیال کے پاس کبھی بھی واپس نہ آسکیں گے، اور یہ بات
Flag Counter