میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپؐ کو تمام حالات سے باخبر کیا، تو آپ نے مجھ پر اس شال کا ایک حصہ ڈال دیا جسے آپ اوڑھ کر نماز پڑھ رہے تھے، اس کے بعد میں صبح تک سوتا رہا، صبح کو جب بیدار ہوا تو آپؐ نے کہا: اُٹھو، اے بہت سونے والے۔ [1]
لشکرِ کفار کی واپسی:
اس طرح کافروں کی صفوں میں یاس وناامیدی پھیل گئی، اور تیز وتند ہوا کے سبب ان کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہوگئی کہ صحرا کی تاریکی میں سرچھپاتے پھرتے تھے، اور بالآخر خائب و خاسر ہوکر مدینہ سے پیٹھ پھیر کر اپنے اپنے شہروں اور بستیوں کی طرف واپس چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی اسی حالت کو یوں بیان فرمایا ہے:
((وَرَدَّ اللَّـهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ قَوِيًّا عَزِيزًا))
[الأحزاب: 25]
’’ اور اللہ نے کافروں کو غیظ و غضب بھرے دلوں کے ساتھ واپس کر دیا، اپنی کوئی بھی مراد حاصل نہ کر سکے، اور اللہ مومنوں کی طرف سے قتال کے لیے کافی ہو گیا، اور اللہ بڑی قوت والا، زبردست ہے۔ ‘‘
جب صبح ہوئی اور مسلمانوں نے خندق کی دوسری طرف نظر ڈالی تو چند بکھرے خالی خیموں کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اپنے گھروں کو کامیاب وبامراد واپس آگئے۔کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کافروں کی فوج کا پیچھا کرنے کے بعد واپس لوٹے تو اپنی زِرہ اُتار دی، غسل فرمایا اور خوشبو لگائی۔ [2]
معرکۂ خندق نے طاقت کا توازن بدل دیا:
اس غزوہ کی تفصیلات سے ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہوگیا کہ یہ معرکہ اُس دور میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف سب سے خطرناک معرکہ تھا، اور دشمنانِ اسلام تھک ہار کر اور نہایت خائب وخاسر ہوکر واپس چلے گئے، اور انہیں اس بات کا پورا یقین ہوگیا کہ یہ چھوٹی سی اسلامی طاقت جو بڑی تیزی کے ساتھ مدینہ میں نشو ونما پا رہی ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ کافر طاقتیں جمع ہوکر اس کا خاتمہ کردیں۔
یہ معرکہ ایسا فیصلہ کن تھا جس نے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان طاقت کے توازن کو یکسر بدل دیا، چنانچہ کفرو شرک کی طاقت اس معرکہ کے بعد زوال پذیر ہوگئی، اور اسلام کی طاقت روز افزوں ترقی کرتی گئی۔
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے لشکرانِ کفار کی واپسی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتیسنا: اب ہم آگے بڑھ کر ان پر حملہ کریں گے، وہ ہم پر حملہ نہیں کریں گے، جنگ کرنے کے لیے ہم ان کی طرف چل کر جائیں گے۔ [3]
|