وکینہ ہوتا ہے اور یہی حال قبر پرست مشرکوں کا بھی ہوتا ہے کہ وہ بھی ان موحدین کے شدید ترین دشمن ہوتے ہیں ، جو ان کے دین وعقیدہ پر نہیں ہوتے۔
کمزور مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں عذاب دیاجانا:
مشرکینِ قریش کے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر مسلمان کے خلاف بغض وعداوت اور کینہ وحسد سے بھرے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع تو ان کے چچا ابوطالب، بنوہاشم اور ان کا ساتھ دینے والے بنو مطلب کرتے رہے، اورسیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان کی قوم کرتی رہی، لیکن باقی مسلمان اور بالخصوص ان میں کمزور لوگ مشرکینِ مکہ کے شدید آزمائش وتعذیب سے گزرتے رہے، اور دینِ اسلام پر باقی رہنا ان کے لیے بہت بڑی آزمائش بن گئی ۔ اہلِ قریش نے مکہ کے ہر مسلمان کے خلاف سازش شروع کردی۔ ان پر سختی کی، انہیں بھوک ، پیاس اور ضربِ شدید کے ذریعہ عذاب دیتے رہے، اور سخت گرمی کے وقت انہیں مکہ کے ریتلے علاقے میں لے جاتے اور انہیں دھوپ میں کھڑا کرتے۔ اس طرح ان لوگوں نے مسلمانوں کو ایسی ایسی سزائیں دیں کہ جن کے بیان کرنے سے دل کانپنے لگتا ہے، اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں : مجرم ابوجہل جب بھی مکہ کے کسی شرف وعزت والے آدمی کے بارے میں سنتا کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے تو اس کے خلاف قریشی نوجوانوں کو اُبھارتا ، اور خود بھی اس مسلمان کو ڈانٹ پلاتا، اسے رُسوا کرتا، اور کہتا کہ تونے اپنے باپ کے دین کو چھوڑ دیا، حالانکہ وہ تم سے بہتر تھا، ہم تمہاری حماقت ونادانی کے قصے لوگوںمیں عام کریں گے۔ تمہاری خطاؤں کو اُچھالیں گے، اور تمہاری عزت وشرف کو ہم زمین سے لگا دیں گے، اور اگر وہ مسلمان تاجر ہوتا تو اسے کہتا: اللہ کی قسم! ہم تمہاری تجارت کو ناکام بنادیں گے اور تمہارے مال کو برباد کرکے چھوڑیں گے، اور اگر وہ کوئی کمزور آدمی ہوتا تو اسے مارتا اور لوگوں کو اس کے خلاف اُبھارتا۔
ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے پوچھا: کیا مشرکینِ مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اتنا شدید عذ1ب دیتے تھے کہ جس کے سبب وہ اپنے دین کو چھوڑنے میں معذور سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا:ہاں، اللہ کی قسم! مشرکین بعض مسلمانوں کو مارتے تھے اور انہیں بھوکا اور پیاسارکھتے تھے ، یہاں تک کہ شدت ضرر کی وجہ سے وہ سیدھا بیٹھ نہیں سکتے تھے، مشرکین اُس مسلمان سے یہ بھی کہتے کہ کیا لات وعزیٰ اللہ کے سوا دو معبود ہیں ، تو وہ مسلمان ان کی تعذیب سے بچنے کے لیے ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں : اسی جیسی حالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
((مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ)) [النحل:106]
’’جو شخص ایمان لانے کے بعد پھر اللہ کے ساتھ کفر کر بیٹھے گا، سوائے اس آدمی کے جسے مجبور کیا گیا ہو، درانحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، نہ کہ وہ شخص جس نے کفر کے لیے اپنا سینہ کھول دیاہو، تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب نازل ہوگا، اور ان کے لیے بڑا عذاب ہوگا۔‘‘
|