ایسے مجبور ومظلوم مسلمان اللہ تعالیٰ کے نزدیک معذور تھے۔ [1]
اللہ کی راہ میں انہی عذاب پانے والوں میں سے ’’ بلال بن رباح رضی اللہ عنہ ‘‘بھی تھے ، جو بنی جمح کے ایک آدمی کے غلام تھے اور انہی لوگوں میں پیدا ہوئے تھے ، انہیں اُمیہ بن خلف جمحی قرشی دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں بطحائے مکہ لے جاتا اور پیٹھ کے بل ڈال دیتا ، پھر اس کے حکم سے ایک بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیا جاتا، پھر وہ ظالم ان سے کہتا : اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ ایسا ہی کیا جاتا رہے گا یہاں تک کہ تم مرجاؤگے، یا محمد کا انکار کردوگے اور لات وعزیٰ کی عبادت کروگے ۔ سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ اسی آزمائش میں پڑے کہتے ’’اَحد، اَحد۔‘‘
سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں اپنی جان کو بالکل ارزاں بنا دیا تھا، اس لیے ہر قسم کی سزااور عذاب کو برداشت کرتے تھے ۔ اُمیہ ان کی گردن میں رسی باندھ دیتا اور انہیں بچوں کے حوالے کر دیتا جو ان سے کھیلتے اور مکہ کی گھاٹیوں میں انہیں لیے پھرتے اور وہ صرف یہی کہتے: ’’اَحد اَحد۔‘‘
ایک دن سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے ، اس لیے کہ وہ بنی جمح کے پڑوس میں ہی رہتے تھے ، تو انہوں نے کہا: اے اُمیہ! کیا تم اس مسکین پر ظلم کرتے ہوئے اللہ سے نہیں ڈرتے ہو، تم اسے کب تک عذاب دیتے رہوگے؟ اس نے کہا: تم ہی نے اسے خراب کیا ہے ،تو اِسے اس حال سے نجات کیوں نہیں دلادیتے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تیار ہوں ، میرے پاس ایک کالا غلام ہے جو اس سے زیادہ طاقتور ہے اور جو تمہارے دین پر ہے ، میں اس کے بدلے تمہیں اس کو دیتا ہوں۔ اُمیہ نے کہا: میں نے قبول کرلیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:پھر وہ غلام تمہارا ہوگیا، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنا وہ غلام دے دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ کو لے کر آزاد کر دیا۔
انہی مظلوم وبے کس غلام مسلمانوں میں سے دیگر سات کو بھی سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرتِ مدینہ سے پہلے آزاد کردیا تھا، جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں :
عامر بن فہیرہ التمیمی؛ جو ابتدائے اسلام ہی میں مسلمان ہوگئے تھے ، اور غزوۂ بدر اورغزوۂ اُحُد میں شریک ہوئے اور بئر مَعونہ کے معرکہ میں شہید ہوگئے ۔ یہ کمزور مسلمانوں میں سے تھے ، اس لیے انہیں بہت ہی شدید عذاب دیا گیا ، لیکن اپنے دین پر ثابت قدم رہے۔ یہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے ، یہی بکریاں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس شام کے وقت چھپ کر جاتے تھے جب کہ ہجرت کے وقت دونوں غار ثور میں چھپے ہوئے تھے۔
ابو فـکیہہ؛ ان کا نام افلح یا یسار تھا ، اور یہ صفوان بن اُمیہ بن خلف جمحی کے غلام تھے ، اور بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسلام لے آئے تھے ، اُمیہ بن خلف نے انہیں پکڑلیا اور ان کے دونوں پاؤں میں ایک رسی باندھ کر زمین پر گھسیٹتا رہا، پھر انہیں سخت گرم پتھر پر ڈال دیا۔ ایک بار ان کے پاس سے ایک کیڑا گزرا تو اُمیہ نے ان سے کہا: کیا یہ تمہارا رب نہیں ہے؟ تو انہوں نے کہا: اللہ میرا رب ہے اور تمہارا رب اور اس کیڑے کا رب۔اس جواب پر اُمیہ پوری طاقت کے ساتھ ان کا گلا گھونٹنے لگا، اس وقت اس کے ساتھ اس کا بھائی اُبی بن خلف بھی تھا، جو کہتا تھا: اسے اور عذاب دو، تاکہ محمدؐ آکر اپنے جادو کے ذریعہ اسے نجات دلائے ۔ وہ مشرکین انہیں اسی طرح عذاب دیتے رہے ، یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگئے تو ان لوگوں نے سمجھا کہ یہ
|