رسول! ہمارے علاقہ کی مٹی اچھی نہیں ہے، ہم اگر یہ شراب نہ پییں تو ہمارے پیٹ بڑھ جائیں گے، اس لیے ہمیں ان کے استعمال کی اجازت دیجیے۔ اور اُس نے اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں سے اس کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اے اَشج! اگر میں تمہیں اُس کی اجازت دے دوں گا تو تم اِس کے مانند میں پینے لگوگے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا، اور فرمایا: اور جب تمہارا کوئی شخص شراب میں دُھت ہو جائے گا تو اپنے چچا زاد پر حملہ کرکے اس کی ٹانگ تلوار سے کاٹ ڈالے گا۔ [1]
صحیح مسلم اور دیگر کُتب حدیث میں ہے، اَشج نے کہا: پھر ہم لوگ کس برتن میں پیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چمڑے کے مشکیزوں میں جن کے دہانے باندھ دیے جاتے ہیں۔ وفد والوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے علاقہ میں چوہے بہت ہوتے ہیں، وہ چمڑے کے مشکیزوں کو کاٹ ڈالتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ چوہے انہیں کاٹ دیں، اگرچہ چوہے انہیں کاٹ دیں، اگرچہ چوہے انہیں کاٹ دیں۔
وفد میں جارود عبدی نام کا ایک آدمی تھا جو نصرانی تھا، اس نے اسلام قبول کیا، اور مخلص مسلمان بن گیا۔ اِس شخص نے بیعت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں نے اپنا دین چھوڑ دیا، اور آپ کے دین میں داخل ہوگیا، تو کیا اب اللہ مجھے آخرت میں عذاب نہیں دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، نہیں دے گا۔ [2]
بنی عبد القیس کی خیر کی طرف سبقت اور ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا کہ مسجدِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اقامتِ جمعہ کے بعد پہلا جمعہ انہی کی مسجد میں پڑھا گیا جو بحرین میں مقامِ جواثی میں بنائی گئی تھی۔ [3]
ظہر کے بعد کی دو رکعتیں:
وفدِ عبد القیس کی آمد کی وجہ سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشغول ہوگئے، اسی لیے ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نمازِ عصر کے بعد پڑھ سکے۔ اور امّ المؤمنین امّ سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس بارے میں پوچھا تو فرمایا: بنو عبد القیس کے کچھ لوگ اسلام لانے کے لیے آئے تھے، انہوں نے مجھے ظہر کے بعد کی دونوں رکعتوں سے مشغول کر دیا تھا۔ یہ دونوں رکعتیں وہی ہیں۔ [4]
4۔ وفدِ بنی سعد بن بکر:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ مسجدِ نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک آدمی اونٹ پر سوار مسجد میں آیا، اونٹ کو بٹھایا، اسے باندھا، پھر مخاطب ہو کر پوچھا: آپ لوگوں میں سے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون ہیں؟ اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سامنے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ صحابہ نے کہا: یہ گورے آدمی جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں۔ اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ ہی ابن عبد المطلب ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
|