Maktaba Wahhabi

706 - 704
کو حکم دیا ہے، اور ہر وہ کام نہیں کریں گے جس سے قرآن کریم نے منع کیا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق غایت درجہ شریفانہ، کریمانہ، پاکیزہ اور عظیم تر تھے۔ ذیل میں بعض اہم تر اخلاقِ نبوی کا ذکر کیا جاتاہے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبھی اخلاق اہم تر تھے) تاکہ یہ اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والوں کے لیے بالخصوص اور عامّۃ المسلمین کے لیے بالعموم روشنی کا مینار، ہدایت کا سر چشمہ اور صراطِ مستقیم کے لیے نشانِ راہ بنیں: حِلم، عفو اور صبر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں سب سے زیادہ حلیم وبُردبار، تکلیفوں پر صبر کرنے والے، اور اپنی ذات کے بارے میں خطا کرنے والوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علیٰ وجہ الخصوص ان آداب کریمانہ کی تعلیم دی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ((خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ)) [الأعراف:199] ’’ آپ عفو و در گزر کو اختیار کیجیے اور بھلائی کا حکم دیجیے اور نادانوں سے اعراض کیجیے۔ ‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی کوئی حُرمت پامال کی جاتی تو اللہ کے لیے اس کاانتقام لیتے تھے۔ [1] ایک بار ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پڑی نجرانی کُھر دُری چادر کو اتنی سختی کے ساتھ کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن کے کنارے اس سے چھِل گئے، پھر اعرابی نے کہا: اللہ کا جو مال تمہارے پاس ہے اُس میں سے مجھے دینے کا حکم دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف مُڑ کر دیکھا، اور اس کے لیے عطیہ کا حکم صادر فرمایا۔ [2] غزوہ حنین کے بعد دیہاتی عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چِپک گئے اور مال مانگنے لگے۔ اور شدتِ ازدحام کے سبب آپ ایک ببول کے درخت کے نیچے پہنچ گئے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اٹک گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رُک گئے اور فرمانے لگے: تم لوگ میری چادر دے دو۔ اگر اِن کانٹوں کے برابر بھی میرے پاس جانور ہوتے تو میں انہیں تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا، اور تم لوگ مجھے نہ بخیل پاتے، نہ جھوٹا، اور نہ بُزدل۔ [3] جُود وکرم اور سخاوت: ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے، اور ماہِ رمضان میں تو بہت زیادہ سخی ہو جاتے تھے جب جبریل علیہ السلام آپؐ کے پاس آیا کرتے تھے، اور جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تھے اور آپ کے ساتھ قرآن پڑھا کرتے تھے، جس وقت جبریل علیہ السلام آپؐ سے ملتے اُس وقت تیز ہوا سے بھی زیادہ آپؐ کا جُود وکرم بڑھ جاتا تھا۔ [4]
Flag Counter