تاکہ وہاں کے مسلمانوں کی زکاۃ اور نصرانیوں کا جزیہ جمع کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائیں۔
اسلام نے اس طرح عرب نصرانیوں کا ربط وتعلق رومی حکومت سے کاٹ کر حکومتِ اسلامیہ سے جوڑ دیا، اور مسلمانوں کی پُشت کی طرف سے دشمنوں کے خطرے کو ٹال دیا۔
اِن کارروائیوں کے بعد نجران کے علاقہ میں اسلام اُن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ذریعہ تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا جو وہاں مختلف کاموں سے پہنچ گئے تھے، اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا علاقہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ عاقب اور سیّد دونوں مدینہ منورہ سے واپس جانے کے بعد اسلام لے آئے تھے، اور ان کے اسلام لانے کا بھی یہ اثر ہوا کہ تمام اہلِ نجران مسلمان ہوگئے۔
6۔ وفدِ بنی حنیفہ:
سریّہ محمد بن مسلمہ (جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلادِ نجد کے بنی بکر کے پاس سن 6 ہجری کی ابتداء میں بھیجا تھا) کی خبروں کے ضمن میں پہلے لکھا جا چکا ہے کہ مجاہدین صحابہ نے اس سریّہ سے واپسی میں بنی حنیفہ کے سردار ثُمامہ بن اثال کو گرفتار کر لیا تھا، اور اسے مدینہ لے آئے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے باندھ دینے کا حکم دیا تھا، اور اس کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان بات ہوئی جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر دیا، وہ مسجد کے قریب ہی ایک باغ میں گیا، نہایا اور پھر مسجد میں واپس آگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کر دیا۔ [1]
یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام بنو حنیفہ والوں کے پاس فتحِ مکہ سے پہلے پہنچ چکا تھا، اس لیے کہ ثمامہ اسلام لانے کے بعد عمرہ کے لیے سیدھا مکہ مکرمہ گئے ، وہاں مشرکینِ مکہ نے انہیں اسلام لانے پر عار دلائی، تو انہوں نے اُن کو دھمکی دی کہ وہ انہیں ایک دانہ بھی گیہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر نہیں دے گا۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ اُن میں سے اکثر لوگ اب تک شرک پر مُصِر تھے، اور جب اسلام کا غلبہ ہوا، اور ہر طرف اس کا بول بالا ہوا تو وہ لوگ دیگر قبائلِ عربیہ کی طرح مدینہ منورہ آکر اسلام کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئے۔
بیہقی نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی حنیفہ کا وفد آیا، اُن میں مسیلمہ کذّاب بھی تھا۔ یہ وفد بنی نجّار کی ایک انصاری عورت کے گھر میں ٹھہرا تھا۔ لوگ مسیلمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح لے کر آئے کہ اسے کپڑے سے چُھپایا جا رہا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اُس وقت آپؐ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک لکڑی تھی۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو اس کے لوگ اسے کپڑے کے ذریعہ چُھپا رہے تھے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی اور کہا کہ نصف حاکمیت اس کے لیے ہوگی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم یہ لکڑی بھی مانگو گے جو میرے ہاتھ میں ہے تو میں تمہیں نہیں دوںگا۔
اس روایت میں آیا ہے کہ ملعون نے اپنے ارتداد اور اپنی نبوت کا اعلان کر دیا اور کہا: مجھے اس کام میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ شریک بنا دیا گیا ہے، اس کے بعد وہ مسّجع عبارتیں سنانے لگا اور قرآن کا مقابلہ کرنے لگا۔
|