4۔ رابطۂ اسلام واحد رابطہ:
اب مدینہ میں رہنے والے عرب قبائل کے آپسی تعلقات کی بنیاد قبائلی، لسانی اور اسی طرح کے دیگر عصبیاتی روابط پر نہیں تھی، بلکہ صرف عقیدۂ توحید ہی ان کے درمیان تعلق، اخوت اور محبت کا پہلاسبب بنا، باقی دیگر اسباب وروابط جن کی اسلام نے تائید کی ان کی حیثیت ثانوی تھی، جیسے صلہ رحمی، جس پر اسلام نے مسلمانوں کو بہت زیادہ اُبھارا ہے، قرابت داری، پڑوسی کا حق، ایک شہر میں رہنے والے لوگوں کا ایک دوسرے پر حق وغیرہ۔
اسی وجہ سے جب عقیدہ بدلتا ہے تو اسلامی مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے کہ آدمی اور اس کے باپ، اس کے بیٹے، اس کی بیوی، اور اس کے خاندان وقبیلہ کے درمیان تفریق ہوجائے۔ اور یہی وہ عظیم مصلحت تھی جس کی بنیاد پر ابو عبیدہ بن جرّاح رضی اللہ عنہ نے معرکۂ بدر میں اپنے باپ کو قتل کردیا، اور ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسی جنگ کے بعد دیکھا کہ اُن کے مشرک باپ کی لاش گھسیٹ کر کنویں میں ڈالی جا رہی ہے، اور اُن کے دل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، [1] اور میدانِ بدر میں نضر بن حارث کے قتل کے بعد ابوعزیز مشرکوں کا پرچم اُٹھائے ہوئے تھے، اُسے ابو الیُسر انصاری نے پابند سلاسل کرلیا، تو ان کے بھائی مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اس کے پاس سے گزرے، اور انصاری سے کہا؛ اسے جانے نہ دینا، اس کی ماں بہت مال ومتاع والی ہے، وہ تمہیں پیسے دے کر اسے آزاد کرائے گی۔ ابو عزیز نے کہا: اے میرے بھائی! یہی میرے لیے تمہاری خیرخواہی ہے؟ تو انہوں نے کہا: تم نہیں، میرا بھائی یہ ہے۔ [2]
اور ایک مہاجر صحابی نے غزوۂ بنی المصطلق میں ایک انصاری کو پیچھے سے ایک لات ماردی، اور اس کی خبر عبداللہ بن اُبی بن سلول کو ہوئی تو اُس نے کہا: کیا واقعی مہاجرین نے ایسا کیا؟ اللہ کی قسم! ہم جب مدینہ لوٹیں گے تو زیادہ عزت وشرف والا نہایت ذلیل آدمی کو وہاں سے نکال دے گا، جب اُس منافق کے بیٹے عبداللہ نے یہ بات سنی، تو اُس سے کہا: اللہ کی قسم! تم اس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک اس بات کا اعتراف نہ کرلو کہ تم ذلیل ہو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت و شرف والے ہیں، اور اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ اس کا اعتراف کرتا۔ [3] حالانکہ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول رضی اللہ عنہ اپنے باپ ابن سلول کا مطیع وفرمانبردار تھا، اور اس کا بڑا احترام کرتا تھا، لیکن عقیدہ کا تقاضا اُس کے نزدیک اوّل درجہ میں معتبر تھا، اس لیے جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ایذا پہنچاتا ہے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاکہ اگر آپ چاہیں تو میں اُسے قتل کرکے اس کا سر آپ کے قدموں میں لاکر ڈال دوں۔ [4]
صحابہ کرام کا اپنے کافر رشتہ داروں کے بارے میں ایسا رویّہ کچھ حیرت انگیز نہ تھا، اس لیے کہ اسلام نے اخوت اور دوستی کو صرف مؤمنوں کے درمیان محصور کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ)) [الحجرات:10] … ’’ بے شک مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘
نیز فرمان ہے:
|