Maktaba Wahhabi

583 - 704
ابتدائے اسلام میں جب امرائے اسلام کوئی قلعہ یا شہر فتح کرتے تو فتح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے یہ نماز ادا کرتے تھے۔ [1] فتحِ مکہ کے دن کا خطبہ: فتحِ مکہ کے دوسرے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا:مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرم ہے، لوگوں نے اسے حرم نہیں بنایا ہے، کوئی آدمی جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ یہاں کسی کا خون بہائے، یا کسی درخت کو کاٹے۔ اگر کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کو اپنے لیے حجت بنائے تو اس سے تم لوگ کہو کہ اللہ نے صرف اپنے رسول کو اجازت دی تھی، تم کو اجازت نہیں دی ہے، اور اپنے رسول کو بھی صرف چند ساعت کے لیے اجازت دی تھی، اور آج اس کی حرمت کل کی طرح عود کر آئی ہے۔ ہر حاضر وشاہد غائب کو خبر کر دے۔ اس خطبہ کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے دن بنی خزاعہ کو بنی بکر سے قتال کی اجازت دی تھی، چنانچہ انہوں نے بنی بکر والوں سے اپنا انتقام لے لیا، آپؐ اُس وقت مکہ میں تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار چلانا منع فرما دیا۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ بنی خزاعہ والوں کو حرم میں ہذیل کا ایک آدمی مل گیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے کے لیے جا رہا تھا، اِس آدمی نے خزاعہ والوں کو دورِ جاہلیت میں نقصان پہنچایا تھا، اور خزاعہ کے لوگ اس کی تلاش میں تھے، خزاعہ نے اسے قتل کر دیا، اور تیزی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے تاکہ آپؐ انہیں اس کی اجازت دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ہوئی تو شدید ناراضی کا اظہار کیا، صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ناراض ہوتے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ خزاعہ کے لوگ دوڑ کر ابو بکر وعلی رضی اللہ عنھما کے پاس گئے، اور اُن سے سفارش کرنے کی درخواست کی، انہیں ڈر ہوا کہ وہ ہلاک ہوگئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرنے کے بعد مندرجہ بالا خطبہ دیا۔ اس حدیث کی ایک دوسری روایت میں آیا ہے: ’’اللہ کے نزدیک سب سے سرکش تین قسم کے لوگ ہیں؛ ایک وہ آدمی جو حرم میں قتل کر دیا گیا، دوسرا وہ جس نے اپنے قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کر دیا، اور تیسرا وہ جس نے دورِ جاہلیت کا انتقام اسلام کے بعد طلب کیا۔ اللہ کی قسم! میں اس آدمی کی دیت دوں گا جسے تم لوگوں نے ابھی قتل کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت ادا کی۔‘‘ [2] ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مکہ میں داخل ہونے سے ہاتھی کو روک دیا، اور اپنے رسول اور مؤمنوں کو اس پر مسلط کردیا۔ مکہ مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا، اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا، اس کا شکار بِدکایا نہیں جائے گا، نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے گا، اور نہ ہی اس میں کوئی گم شدہ چیز کسی کے لیے حلال ہوگی، البتہ وہ آدمی اسے اُٹھا سکتا ہے جو اس کے مالک کی تلاش کا ارادہ رکھتا ہو۔ اور جس کا کوئی آدمی قتل کر دیا جائے اسے اختیار ہے کہ یا تو اس کی دیت لے لے، یا قاتل کے قتل کیے جانے کا مطالبہ کرے۔‘‘ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ
Flag Counter