خوبصورت آدمی تھا، جو ایک سفیدو سیاہ نشان والے گھوڑے پر سوار تھا، اسے میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں دیکھ رہا ہوں۔ انصاری نے کہا: میں نے اسے قید کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چپ رہو، اللہ نے ایک معزز فرشتہ کے ذریعہ تمہاری مدد کی تھی۔ [1]
صحیح بخاری میں ہے کہ جبریل امین علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا: آپ لوگوں کی نظر میں اہلِ بدر کا کیا مقام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام مسلمانوں سے افضل، جبریل علیہ السلام نے کہا: یہی مقام ان فرشتوں کا ہے جو معرکۂ بدر میں شریک ہوئے۔ [2]
ابو داؤد مازنی کہتے ہیں: میں ایک مشرک کو مارنے اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا ، اچانک دیکھا کہ اس کا سر الگ ہوگیا ہے، قبل اس کے کہ میری تلوار اس تک پہنچے، میں نے سمجھ لیا کہ اسے میرے سوا کسی اور نے قتل کیاہے۔ [3]
مغازی اموی میں اسنادِ حسن کے ساتھ مروی ہے کہ خیمے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ جھپکی، پھر متنبہ ہوئے تو فرمایا: اے ابو بکر! خوش ہوجائیے، اللہ کی مدد آپ تک آچکی ہے، یہ جبریل علیہ السلام ہیں جو سر پر عمامہ باندھے اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے آگے آرہے ہیں اور غبار اُڑ رہا ہے، اللہ کی مدد اور اس کا وعدہ آگیا۔ [4]
مشرکین کی لاشیں ہر طرف گرنے لگیں، یہاں تک کہ ان میں سے ستر قتل کردیے گئے اور ستر قید کرلیے گئے، اور ان میں سے بعض اپنی انہی جگہوں پر گرے تھے جن کی نشان دہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکہ سے پہلے کردی تھی، اور ان مقتولین کے نام بھی بتادیے تھے۔
ابلیس کا میدانِ جنگ سے فرار:
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب کفارنے مکہ سے نکلنے کا پختہ ارادہ کرلیا، تو انہوں نے اپنے اور بنو کنانہ کے درمیان جنگی حالت کا ذکر کیا، اُس وقت ابلیس ان کے پاس سراقہ بن مالک مدلجی کی شکل میں ظاہر ہوا، جو بنو کنانہ کے سرداروں میں سے تھا، اور ان سے کہا: آج کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا، اور میں تمہیں ضمانت دیتا ہوں کہ بنو کنانہ کی طرف سے تمہیں نقصان نہیں پہنچے گا، چنانچہ اہلِ قریش نکلے اور شیطان ان کے ساتھ ساتھ رہا، اور جب معرکہ کا وقت آیا اور اللہ کے دشمن ابلیس نے اللہ کی فوج کو آسمان سے اُترتے دیکھا، تو پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑا، کفار نے کہا: اے سراقہ !کہاں جارہے ہو، کیا تم نے کہا نہیں تھاکہ تم ہمارے ساتھ رہوگے، ہم سے کبھی الگ نہیں ہوگے؟ اس نے کہا: میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ہو، میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ کا عذاب بہت سخت ہوتا ہے۔ [5]
طبرانی نے رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب ابلیس نے میدانِ بدر میں مشرکین کے ساتھ فرشتوں کا معاملہ دیکھا تو اسے ڈر ہوا کہ کہیں اس کی بھی باری نہ آجائے۔ اس وقت حارث بن ہشام اس سے چمٹا ہوا تھا، اور اس کا خیال تھا کہ
|