واقعۂ اَصحابِ فیل:
جمہور مؤلفینِ سیرتِ نبویہ نے محمد بن اسحاق کی مشہور روایت کو ترجیح دی ہے کہ جب اَبرہہ اَشرم نصرانی، نے جو حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا، دیکھا کہ تمام عرب قومیں کعبہ کی تعظیم میں (جسے ان کے دادا ابراہیم علیہ السلام اور باپ اسماعیل علیہ السلام نے بنایا تھا) حج کرنے کے لیے مکہ جاتی ہیں، تو اس نے یمن میں ایک نہایت خوبصورت گِرجا بنوایا، جس کا نام ’’قُلَیس‘‘ رکھا، اور لوگوں کو اس کی زیارت کی دعوت دی، تاکہ عربوں کی توجہ مکہ اور خانہ کعبہ سے ہٹائی جائے، اور انہیں اس کا حج کرنے سے روکا جائے۔
جب عربوں کو ابرہہ کے اس کیے کا علم ہوا، تو ان پر بڑا گراں گزرا، چنانچہ کوئی عربی اُس گِرجا میں چپکے سے داخل ہوگیا، اور اس میں پاخانہ کرکے اس کی دیواروں پر لگا دیا۔ اَبرہہ بہت زیادہ ناراض ہوا، اور قسم کھائی کہ وہ مکہ کو اپنی فوجوں کے ذریعہ روندے گا، اور خانۂ کعبہ کو گِرا دے گا۔ ایک بڑی فوج لے کر مکہ کی طرف چل پڑا جس کی تعداد ساٹھ ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے، اور خود ایک بڑے بھاری بھرکم ہاتھی پر سوار ہوا۔
عربوں نے جب یہ خبر سنی تو بہت پریشان ہوئے اور گھبرائے، اور اس سے جنگ کرنا ضروری سمجھا۔ چنانچہ شرفائے یمن میں سے ذُو نفر نامی ایک شخص نے اس کا اور اس کی فوج کا راستہ روکنا چاہا، لیکن وہ اپنی فوج کے ساتھ شکست کھا گیا اور گرفتار کرلیا گیا۔
کچھ اور آگے بڑھا تو نفیل بن حبیب خثعمی نے دیگر قبائلِ عرب کے ساتھ اُسے روکنا چاہا، اور زبردست جنگ کی، لیکن اس کو بھی شکست ہوگئی، اور ابرہہ کی فوج نے ذو نفر کی طرح اسے بھی گرفتار کرلیا۔
ابرہہ مکہ کی طرف بڑھتا ہوا طائف سے گزرا، تو وہاں کے لوگوں نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، اور اپنی طاعت وفرمانبرداری کا اس کے لیے اعلان کردیا، اور اس کے ساتھ ابو رغال کوبھیج دیا، تاکہ اسے مکہ کا راستہ بتاتا جائے۔ ابرہہ اور اس کی فوج نے مکہ جاتے ہوئے عربوں کا بہت سارا مال لوٹ لیا۔ عبد المطلب کے دو سو اونٹ بھی اس نے اپنے قبضہ میں کرلیے۔
جب ابرہہ مکہ سے دو میل کی دوری پر واقع مقام مغمس پہنچا، تو اپنے قاصد حُناطہ حمیری کو سردارِ مکہ عبدالمطلب کے پاس بھیجا، اُس نے عبدالمطلب سے کہا: بادشاہ نے تم سے کہلا بھیجا ہے کہ میں تم لوگوں سے جنگ کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں۔ میرا مقصد تو صرف خانۂ کعبہ کو گِرانا ہے۔ عبد المطلب نے کہا: اللہ کی قسم! ہم بھی اُس سے جنگ کرنا نہیں چاہتے، اور یہ گھر تو اللہ کا بیتِ حرام، اور اس کے خلیل اِبراہیم علیہ السلام کا گھر ہے، اگر وہ ابرہہ کو اُسے گرانے سے روک دے گا تو وہ اس کا گھر اور اُس کا حرم ہے، اور اگر اُسے گِرانے کے لیے ابرہہ کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے تو اللہ کی قسم! ہم اُس کا دفاع نہیں کرسکتے ہیں۔ حُناطہ نے کہا: تو پھر تم میرے ساتھ اُس کے پاس چلو، اُس نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اُس کے پاس لے چلوں۔
جب ابرہہ نے عبدالمطلب کو دیکھا تو اُن کی تعظیم وتکریم کی، اس لیے کہ وہ بڑے خوبصورت اوربڑی ہیبت وعظمت والے آدمی تھے۔ پھر ابرہہ نے اپنے ترجمان سے کہا : اس سے پوچھو: تمہاری کیا حاجت ہے؟ عبدالمطلب نے کہا: میری حاجت یہ ہے کہ بادشاہ میرے دو سو اونٹ لوٹا دے جنہیں اس نے اپنے قبضہ میں کر لیا ہے۔ جب عبد المطلب نے یہ بات
|