’’ (مسلمانو!) تمہارے لیے تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں جن پر ہر وہ بات شاق گزرتی ہے جس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے، تمہاری ہدایت کے بڑے خواہشمند ہیں، مومنوں کے لیے نہایت شفیق ومہربان ہیں۔ ‘‘
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر اُن سب کے لیے آسمانی بجلی یا اس سے بھی زیادہ سخت اور زلزلہ خیز تھی۔
خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انس رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام کے غم واَلم کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے: میں نے اپنی زندگی میں اُس دن سے زیادہ روشن وتابناک کوئی دن نہیں دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، اور اُس دن سے زیادہ بد شکل اور تاریک دن نہیں دیکھا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ [1]
سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ہائے! میرے ابّا نے اپنے رب کے بلاوے کو قبول کر لیا، ہائے! میرے ابّا کا ٹھکانا جنت الفردوس ہوگا، ہائے! میں اپنے ابّا کی موت کی تعزیت جبریل علیہ السلام سے کرتی ہوں۔ [2]
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اِس غمناک خبر سے حواس کھو بیٹھے اور کہنے لگے: کچھ منافقین کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی ہے، وہ تو اپنے رب سے ملنے گئے ہیں جیسے موسیٰ بن عمران اللہ سے ملنے گئے تھے، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور واپس آئیں گے اور ایسے لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالیں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ وفات پا گئے۔
سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کی اذان دی، اور نبی کریم کا ذکر آیا تو دھاڑیں مار کر رونے لگے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے غم وحُزن میں اضافہ ہوگیا، اس لیے کہ ان کی عادت یہ تھی کہ وہ ہر روز اذان سنتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے درمیان ہوتے تھے۔ امّ المؤمنین سیّدہ امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ہم پر جو مصیبت آئی اس کی غایت درجہ المناکی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بھی ہم پر کوئی مصیبت آتی تو آپ کی وفات کی مصیبت کو یاد کر لیتے تھے تو وہ مصیبت ہلکی ہو جاتی تھی۔ [3]
بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں گے اور سب لوگ بھی فوت ہو جائیں گے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی کی تیماداری نہیں کی تھی، ایک دن آپؐ کا سر میرے کندھے پر تھا کہ اچانک آپؐ کا سر میرے سر کی طرف جُھک گیا، میں نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے سر سے کوئی ضرورت ہے، اچانک دیکھتی ہوں کہ آپؐ کے منہ سے ٹھنڈا پانی نکل کر میری گردن کے کنارے پر گِرا، میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، میں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوگئے ہیں، تو میں نے آپؐ پر ایک کپڑا ڈال دیا۔
اُسی وقت سیّدنا عمر اور مغیرہ بن شعبہ( رضی اللہ عنھما ) آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے دونوں کو اجازت دے دی، اور پردہ کر لیا، عمر رضی اللہ عنہ نے آپؐ پر نظر ڈالی اور کہا: ہائے! کتنی شدید غشی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، پھر دونوں کھڑے ہوگئے،
|