Maktaba Wahhabi

348 - 704
ساتھ خیانت کرکے میدانِ معرکہ سے بھاگ آئے ہیں، ان کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ قریشیوں کی اتنی بڑی اسلحہ سے لدی بھری فوج پر غالب آجائیں گے، لیکن جب انہوں نے یہ بُری خبر اُن فوجیوں سے سنی تو مبہوت ہوگئے اور انہیں گمان ہوا کہ جو قاصد شکست کی خبر اور اپنے سرداروں کے قتل کی خبرلے کر آیاہے، اس کی عقل ماری گئی ہے، اسی لیے وہ بکواس کررہا ہے۔ پہلا آدمی جو قریش کی تباہی وبربادی کی خبریں لے کر مکہ آیاتھا وہ حسیمان بن عبداللہ الخزاعی تھا، قریش نے اس سے پوچھا: تمہارے پاس کیا خبریں ہیں، اس نے کہا: عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو الحکم بن ہشام(ابو جہل) امیہ بن خلف، زمعہ بن اسود، حجاج کے دونوں بیٹے؛ نبیہ اور منبہ اور ابوالبختری بن ہشام یہ سب کے سب قتل کردیے گئے۔ جب وہ شخص سردارانِ قریش کو گنانے لگا تو صفوان بن امیہ نے کہا جو کعبہ کے پاس حِجر کے حصے میں بیٹھا تھا: اللہ کی قسم! اگر اس کے پاس عقل ہے تو اس سے آپ لوگ میرے بارے میں پوچھیے، انہوں نے پوچھا: صفوان بن امیہ کا کیا ہوا، تو حسیمان نے کہا: یہ تو حِجر میں بیٹھا ہوا ہے، اللہ کی قسم میں نے اُس کے باپ اور بھائی کو قتل ہوتے دیکھاہے۔ قریش کی شکست کی خبر سردارِ مکہ ابو سفیان پر بجلی بن کر گِری، اور اس کے غصے کی آگ بھڑک اُٹھی، اور اس کی بیوی ہند اپنے باپ، بھائی اور چچا کے غم میں چیخ پکار کرنے لگی، اور رات دن سینہ پیٹنے اور واویلا کرنے لگی۔اور کہنے لگی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ بن عبدالمطلب اور علی بن ابوطالب( رضی اللہ عنہما) سے عنقریب انتقام لے گی۔ [1] ابولہب کا انجام: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عباس بن عبدالمطلب کا غلام تھا، اور اسلام ہمارے گھر میں داخل ہوگیا تھا، اور عباس اور امّ الفضل( رضی اللہ عنہما) اسلام لاچکے تھے، اور میں بھی مسلمان ہوچکا تھا، اورعباس رضی اللہ عنہ اپنی قوم سے ڈرتے تھے، اور ان کی مخالفت کوناپسند کرتے تھے، اسی لیے انہوں نے اپنے اسلام کوچھپا رکھا تھا، وہ مالدار آدمی تھے، ان کا مال ان کی قوم کے مختلف لوگوں کے پاس تھا، ابولہب معرکۂ بدر میں شریک نہیں ہوا تھا، جب اس کو بدر میں قریشیوں کے مارے جانے کی خبر ملی تووہ نہایت رنجیدہ ہوا، اور اللہ نے اسے ذلیل ورسوا کیا، اورہم نے اپنے اندر قوت اور غلبہ کا احساس کیا، ابولہب ہمارے گھر آیا، اس وقت امّ الفضل بیٹھی تھیں، اور ابو لہب کے چہرہ پر خباثت اور شرارت کے آثار ظاہر تھے، وہ کمرے کے پردہ سے قریب بیٹھ گیا، اس کی پیٹھ میری پیٹھ کی طرف تھی، پھر ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب داخل ہوا، یہ ان لوگوں میں سے تھا جو میدانِ بدر سے بھاگ آنے میں کامیاب ہوگئے تھے، اس نے کہا: اللہ کی قسم! جوں ہی ہماری مڈبھیڑ مسلمانوں سے ہوئی، انہوں نے ہمیں قتل کرنا اور قید کرنا شروع کردیا، تو ہم پیچھے مڑ کر بھاگ پڑے، اور اللہ کی قسم! ہم نے اپنے لوگوں کو ایسا کرنے پر ملامت نہیں کی، اس لیے کہ ہماری مڈبھیڑ ایسے سفید پوش لوگوں سے ہوئی تھی جو سفید وسیاہ گھوڑوں پر سوار آسمان وزمین کے درمیان پھیلے ہوئے تھے، اللہ کی قسم! اُن کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹکتی تھی۔ ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے یہ سن کر اپنے ہاتھ سے پردے کو اٹھایا اور کہا: اللہ کی قسم! وہ فرشتے تھے، تو ابولہب نے اپنا
Flag Counter