Maktaba Wahhabi

572 - 704
نے پوچھا: کیا ہمارے اور اُن کے درمیان مدت مقرر نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے غدّاری اور بد عہدی کی ہے، اس لیے اُن پر حملہ کرنے والا ہوں۔ لیکن آپ اس بات کو مخفی رکھیے، تاکہ کوئی شام کا گمان کرے، کوئی ثقیف کا، اور کوئی ہوازن کا۔ ابھی کچھ ہی پہلے بتا چکا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ سے قبل ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ کو آٹھ مجاہدین کے ساتھ بطنِ اضم کی طرف اسی خیال سے بھیجا تھا،تاکہ لوگ سمجھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسی جہت کا ارادہ رکھتے ہیں، اور یہ خبر لوگوں میں پھیل جائے۔ حاطب رضی اللہ عنہ کا خط اہلِ مکہ کے نام: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش پر حملہ کا پختہ ارادہ کر لیا، اور مدینہ میں لوگوں کو یہ بات بتا دی، اور صحابہ کرام کو پوری طرح تیار ہو جانے کا حکم دے دیا، تو حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ نے قریشیوں کو لکھ بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، یہ بات انہوں نے تین اشخاص کو لکھ بھیجی۔ صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابو جہل کو۔ اور وہ خط انہوں نے ایک مُزنی عورت کو دیا، اور کہا کہ اگر وہ اسے قریش تک پہنچا دے گی تو اس کو وہ ایک اچھا معاوضہ دیں گے اور اس کو تاکید کردی کہ وہ خط کی خبر کسی کو نہ ہونے دے، اور عام رہ گزر سے نہ جائے اس لیے کہ اس راہ کی نگرانی ہو رہی ہے۔ چنانچہ اس عورت نے وہ خط اپنے بال کے جوڑے میں رکھ لیا، اور مدینہ سے ایسے راستہ پر چلی جس کے لوگ عادی نہیں تھے۔ اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی حاطب رضی اللہ عنہ کے کیے کی خبر دے دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً علی اور زبیر رضی اللہ عنھما کو روانہ کیا، اور ان سے کہا کہ اُس مُزنی عورت تک جلد پہنچ جاؤ جسے حاطب نے اہل ِمکہ کے نام خط دے کر بھیجا ہے، اور قریشیوں کو جنگ کی خبر سے آگاہ کیا ہے۔ ان کو وہ عورت ’’خُلیفہ‘‘ نام کے مقام پر مل گئی، انہوں نے اسے سواری سے اُتارا، تو اُس کے پاس کچھ بھی نہ ملا۔ انہوں نے اس سے کہا: ہم اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے نہیں ہیں، اور ہم بھی جھوٹ نہیں بول رہے ہیں، اس لیے تم وہ خط نکالو، ورنہ ہم تمہارے کپڑے اُتروا دیں گے۔ عورت نے جب ان دونوں کا اصرار دیکھا تو کہنے لگی: تم دونوں مجھ سے الگ ہٹ جاؤ، وہ دونوں الگ ہوگئے تو اس نے اپنا جوڑا کھول کر اُس میں سے خط نکالا، اور اُن کے حوالے کر دیا۔ دونوں اُسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول پر کامل ایمان رکھتا ہوں، میں نے اپنے ایمان میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے، لیکن میں ایک ایسا آدمی ہوں جس کی مکہ میں کوئی اصل اور خاندان نہیں ہے، اور وہاں میرے بال بچے ہیں، اس لیے میں نے اہلِ مکہ کے ساتھ بھلائی کرنی چاہی تھی۔ (تاکہ وہ میرے اہل وعیال کا خیال رکھیں۔) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تم سے سمجھے، دیکھ رہے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل راز داری سے کام لے رہے ہیں، اور تم قریش کو لکھ کر انہیں آگاہ کر رہے ہو؟ اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ اس کی گردن مار دوں، یہ تو منافق ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! کیا تمہیں خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ بدر کے دن اہلِ بدر کی حقیقت پر پوری طرح مطلع ہوگیا
Flag Counter